Monday 30 November 2015

Staff Required for Different Companies


Haripur- Jinnah Jameh School Student Suicide Attempt Fails


Heera Mandi Lahore


نوراں کنجری


Heera Mandi, LahorePhotographer: Parthiv Shah
Heera Mandi, Lahore Photographer: Parthiv Shah
جامعہ مسجد سے ہیرا منڈی لاہور کی ایک پرانی مسجد میں کر دی. وجہ یہ تھی کے  میں نے قریبی علاقے کے ایک کونسلر کی مسجد کے لاوڈ سپیکر پے تعریف کرنے سے انکار کر دیا تھا. شومئی قسمت کے وہ کونسلر محکمہ اوقاف کے ایک بڑے افسرکا بھتیجا تھا. نتیجتاً میں لاہور شہر کے بدنام ترین علاقے میں تعینات ہو چکا تھا. بیشک کہنے کو میں مسجد کا امام جا رہا تھا مگر علاقے کا بدنام ہونا اپنی جگہ. جو سنتا تھا ہنستا تھا یا پھر اظھار افسوس کرتا تھا
محکمے کے ایک کلرک نے تو حد ہی کر دی. تنخواہ کا ایک معاملہ حل کرانے اس کے پاس گیا تو میری پوسٹنگ کا سن کے ایک آنکھ دبا کر بولا
.قبلہ مولوی صاحب، آپ کی تو گویا پانچوں انگلیاں گھی میں اور سر کڑاہی میں.’ میں تو گویا زمین میں چھ فٹ نیچے گڑ گیا’ 
پھر الله بھلا کرے میری بیوی کا جس نے مجھے تسلی دی اور سمجھایا کے
 امامت ہی توہے، کسی بھی مسجد میں سہی. اور میرا کیا ہے؟ میں تو ویسے بھی گھر سے نکلنا پسند نہیں کرتی. پردے کا کوئی مسلہ نہیں ہوگا. اور پھر ہمارے کونسے کوئی بچے ہیں کے ان کے بگڑنے کا ڈر ہو
بیوی کی بات سن کر تھوڑا دل کو اطمینان ھوا اور ہم نے سامان باندھنا شروع کیا. بچوں کا ذکر چھڑ ہی گیا تو یہ بتاتا چلوں کے شادی کے بائیس سال گزرنے کے باوجود الله نے ہمیں اولاد جیسی نعمت سے محروم ہی رکھنا مناسب سمجھا تھا. خیر اب تو شکوہ شکایت بھی چھوڑ چکے تھے دونوں میاں بیوی. جب کسی کا بچہ دیکھ کر دل دکھتا تھا تو میں یاد الہی میں دل لگا لیتا اور وہ بھلی مانس کسی کونے کھدرے میں منہ دے کر کچھ آنسو بہا لیتی
سامان باندھ کر ہم دونوں میاں بیوی نے الله کا نام لیا اور لاہورجانے کے لئے ایک پرائیویٹ بس میں سوار ہوگئے. بادامی باغ اڈے پے اترے اور ہیرا منڈی جانے کے لئے سواری کی تلاش شروع کی. ایک تانگے والے نے مجھے پتا بتانے پر اوپر سے نیچے تلک دیکھا اور پھر برقع میں ملبوس عورت ساتھ دیکھ کر چالیس روپے کے عیوض لے جانے کی حامی بھری. تانگہ چلا تو کوچبان نے میری ناقص معلومات میں اضافہ یہ کیہ کر کیا کے
 ‘میاں جی، جہاں آپ کو جانا ہے، اسے ہیرا منڈی نہیں، ٹبی گلی کہتے ہیں
پندرہ بیس منٹ میں ہم پوہنچ گئے. دوپہر کا وقت تھا. شاید بازار کھلنے کا وقت نہیں تھا. دیکھنے میں تو عام سا محلہ تھا. وہ ہی ٹوٹی پھوٹی گلیاں، میلے کرتوں کےغلیظ دامن سے ناک پونچھتے ننگ دھڑنگ بچے، نالیوں میں کالا پانی اور کوڑے کے ڈھیروں پے مڈلاتی بےحساب مکھیاں. سبزیوں پھلوں کے ٹھیلے والے اور ان سے بحث کرتی  کھڑکیوں سے آدھی باہرلٹکتی عورتیں. فرق تھا تو صرف اتنا کے پان سگریٹ اور پھول والوں کی دکانیں کچھ زیادہ تھیں. دوکانیں تو بند تھیں مگر ان کے نۓ پرانے بورڈ اصل کاروبار کی خبر دے رہے تھے
مسجد کے سامنے تانگہ کیا رکا، مانو محلے والوں کی عید ہوگیی. پتہ نہیں کن کن کونے کھدروں سے بچے اور عورتیں نکل کر جمع ہونے لگیں. ملی جلی آوازوں نے آسمان سر پے اٹھا لیا.
ابے نیا مولوی ہے’
بیوی بھی ساتھ ہے. پچھلے والے سے تو بہتر ہی ہوگا’
کیا پتہ لگتا ہے بہن، مرد کا کیا اعتبار؟’
ہاں ہاں سہی کہتی ہے تو. داڑھی والا مرد تو اور بھی خطرناک’
عجیب طوفان بدتمیز تھا. مکالموں اور فقروں سے یہ معلوم پڑتا تھا کے جیسے طوائفوں کے محلے میں مولوی نہیں، شرفاء کے محلے میں کوئی طوائف وارد ہوئی ہو. اس سے پہلے کے میرے ضبط کا پیمانہ لبریز ہوتا، خدا خوش رکھے غلام شببر کو جو ‘مولوی صاحب’ ‘مولوی صاحب’ کرتا دوڑا آیا اور ہجوم کو وہاں سے بھگا دیا. پتہ چلا کے مسجد کا خادم ہے اور عرصہ پچیس سال سے اپنے فرائض منصبی نہایت محنت اور دیانت داری سے ادا کر رہا تھا. بھائی طبیعت خوش ہوگیی اس سے مل کے. دبلا پتلا پکّی عمر کا مرد. لمبی سفید داڑھی. صاف ستھرا سفید پاجامہ کرتا، کندھے پے چار خانے والا سرخ و سفید انگوچھا. پیشانی پے محراب کا کالا نشان، سر پے سفید ٹوپی اور نیچی نگاہیں. سادہ اور نیک آدمی اور منہ پے شکایت کا ایک لفظ نہیں. بوڑھا آدمی تھا مگر کمال کا حوصلہ و ہمّت رکھتا تھا     
 سامان سمبھالتے اور گھر کو ٹھیک کرتے ہفتہ دس دن لگ گئے. گھر کیا تھا. دو کمروں کا کوارٹر تھا مسجد سے متصل. ایک چھوٹا سا باورچی خانہ، ایک اس سے بھی چھوٹا غسل خانہ اور بیت الخلا اور ایک ننھا منا سا صحن. بہرحال ہم میاں بیوی کو بڑا گھر کس لئے چاہیے تھا. بہت تھا ہمارے لئے. بس ارد گرد کی عمارتیں اونچی ہونے کی وجہ سے تاریکی بہت تھی. دن بارہ بجے بھی شام کا سا دھندلکا چھایا رہتا تھا. گھر ٹھیک کرنے میں غلام شببر نے بہت ہاتھ بٹایا. صفائی کرنے سے دیواریں چونا کرنے تک. تھوڑا کریدنے پے پتا چلا کے یہاں آنے والے ہر امام مسجد کے ساتھ غلام شبّیرگھر کا کام بھی کرتا تھا. بس تنخواہ کے نام پے غریب دو وقت کا کھانا مانگتا تھا اور رات کو مسجد ہی میں سوتا تھا. یوں اس کو رہنے کی جگہ مل جاتی تھی اور مسجد کی حفاظت بھی ہوجاتی تھی
ایک بات جب سے میں آیا تھا، دماغ میں کھٹک رہی تھی. سو ایک دن غلام شببر سے پوچھ ہی لیا
میاں یہ بتاؤ کے پچھلے امام مسجد کے ساتھ کیا ماجرا گزرا؟’
وہ تھوڑا ہچکچایا اور پھر ایک طرف لے گیا کے بیگم کے کان میں آواز نہ پڑے
میاں جی اب کیا بتاؤں آپ کو؟ جوان آدمی تھے اور غیر شادی شدہ بھی. محلے میں بھلا حسن کی کیا کمی ہے. بس دل آ گیا ایک لڑکی پے. لڑکی کے دلال بھلا کہاں جانے دیتے تھے سونے کی چڑیا کو. پہلے تو انہوں نے مولانا کو سمجھنے بجھانے کی کوشش کی. پھر ڈرایا دھمکایا. لیکن مولانا نہیں مانے. ایک رات لڑکی کو بھگا لے جانے کی کوشش کی. بادامی باغ اڈے پر ہی پکڑے گئے. ظالموں نے اتنا مارا پیٹا کے مولانا جان سے گئے’. غلام شبّیر نے نہایت افسوس کے ساتھ ساری کہانی سنائی
پولیس وغیرہ؟ قاتل پکڑے نہیں گئے؟’ میں نے گھبرا کر پوچھا’
غلام شبّیر ہنسنے لگا. ‘کمال کرتے ہیں آپ بھی میاں جی. پولیس بھلا ان لوگوں کے چکروں میں کہاں پڑتی ہے. بس اپنا بھتہ وصول کیا اور غائب. اور ویسے بھی کوتوال صاحب خود اس لڑکی کے عاشقوں میں شامل تھے
لاحول ولا قوّت الا باللہ…..کہاں اس جہنم میں پھنس گئے.’ میں یہ سب سن کر سخت پریشان ہوا’
آپ کیوں فکر کرتے ہیں میاں جی؟ بس چپ کر کے نماز پڑھیں اور پڑھاہیں. دن کے وقت کچھ بچے آ جایا کریں گے. ان کو قران پڑھا دیں. باقی بس اپنے کام سے کام رکھیں گے تو کوئی تنگ نہیں کرتا یہاں. بلکہ مسجد کا امام اچھا ہو تو گناہوں کی اس بستی میں لوگ صرف عزت کرتے ہیں.’ غلام شبّیر نے میری معلومات میں اضافہ کرتے ہوے بتایا تو میری جان میں جان آی
انہی شروع کے ایام میں ایک واقعیہ ہوا. پہلے دن ہی دوپہر کے کھانے کا وقت ہوا تو دروازے پے کسی نے دستک دی. غلام شبّیر نے جا کے دروازہ کھولا اور پھر ایک کھانے کی ڈھکی طشتری لے کے اندر آ گیا. میری سوالیہ نگاہوں کے جواب میں کہنے لگا
نوراں نے کھانا بھجوایا ہے. پڑوس میں رہتی ہے’
میں کچھ نا بولا اور نا ہی مجھے کوئی شک گزرا. سوچا ہوگی کوئی الله کی بندی. اور پھر امام مسجد کے گھر کا چولھا تو ویسے بھی کم ہی جلتا ہے. بہرحال جب اگلے دو دن بھی یہ ہی معمول رہا تومیں نے سوچا کے یہ کون ہے جو بغیر کوئی احسان جتاے احسان کیے جا رہی ہے.عشاء کی نماز کے بعد مسجد میں ہی تھا جب غلام شبّیر کو آواز دے کے بلایا اور پوچھا
میاں غلام شبّیر یہ نوراں کہاں رہتی ہے؟ میں چاہتا ہوں میری گھر والی جا کر اس کا شکریہ ادا کرآے’
غلام شبّیر کے تو اوسان خطا ہو گئے یہ سن کر. ‘ میاں جی ، بی بی نہیں جا سکتی جی وہاں
میں نے حیرانی سے مزید استفسار کیا تو گویا غلام شبّیر نے پہاڑ ہی توڑ دیا میرے سر پے
 میاں جی ، اس کا پورا نام تو پتا نہیں کیا ہے مگر سب اس کو نوراں کنجری کے نام سے جانتے ہیں. پیشہ کرتی ہے جی’
پیشہ کرتی ہے؟ یعنی طوائف ہے؟ اور تم ہمیں اس کے ہاتھ کا کھلاتے رہے ہو؟ استغفراللہ! استغفراللہ’
غلام شبّیر کچھ شرمسار ہوا میرا غصّہ دیکھ کر. تھوڑی دیر بعد ہمّت کر کے بولا:
میاں جی یہاں تو سب ایسے ہی لوگ رہتے ہیں. ان کے ہاتھ کا نہیں کھاییں گے تو مستقل چولھا جلانا پڑے گا جو آپ کی تنخواہ میں ممکن نہیں
یہ سن کر میرا غصّہ اور تیز ہوگیا. ‘ہم شریف لوگ ہیں غلام شبّیر، بھوکے مر جایئں گے مگر طوائف کے گھر کا نہیں کھاییں گے
میرے تیور دیکھ کر غلام شبّیر کچھ نہ بولا مگر اس دن کے بعد سےنوراں کنجری کے گھر سے کھانا کبھی نا آیا
جس مسجد کا میں امام تھا، عجیب بات یہ تھی کے اس کا کوئی نام نہیں تھا. بس ٹبی مسجد کے نام سے مشهور تھی. ایک دن میں نے غلام شبّیر سے پوچھا کے “میاں نام کیا ہے اس مسجد کا؟” وہ ہنس کر بولا،
میاں جی الله کے گھر کا کیا نام رکھنا؟”
پھر بھی؟ کوئی تو نام ہوگا. سب مسجدوں کا ہوتا ہے.” میں کچھ کھسیانا ہو کے بولا’
بس میاں جی بہت نام رکھے. جس فرقے کا مولوی آتاہے، پچھلا نام تبدیل کر کے نیا رکھ دیتا ہے.آپ ہی کوئی اچھا سا رکھ دیں.” وہ سر کھجاتا ہوا بولا.
میں سوچ میں پڑ گیا. گناہوں کی اس بستی میں اس واحد مسجد کا کیا نام رکھا جائے؟ “کیا نام رکھا جائے مسجد کا؟ ہاں موتی مسجد ٹھیک رہے گا. گناہوں کے کیچڑ میں چمکتا پاک صاف موتی.” دل ہی دل میں میں نے مسجد کے نام کا فیصلہ کیا اور اپنی  پسند کو داد دیتا اندر کی جانب بڑھ گیا جہاں بیوی کھانا لگاے میری منتظر تھی        
اب بات ہوجاے قرآن پڑھنے والے بچوں کی. تعداد میں گیارہ تھے اور سب کے سب لڑکے. ملی جلی عمروں کے پانچ سے گیارہ بارہ سال کی عمر کے. تھوڑے شرارتی ضرور تھے مگر اچھے بچے تھے.نہا دھو کے اور صاف ستھرے کپڑے پہن کے آتے تھے. دو گھنٹے سپارہ پڑھتے تھے اور پھر باہر گلی میں کھیلنے نکل جاتے. کون تھے کس کی اولاد تھے؟ نہ میں نے کبھی پوچھا نا کسی نے بتایا. لیکن پھر ایک دن غضب ہوگیا. قرآن پڑھنے والے بچوں میں ایک بچہ نبیل نام کا تھا. یوں تو اس میں کوئی خاص بات نا تھی. لیکن بس تھوڑا زیادہ شرارتی تھا. تلاوت میں دل نہیں لگتا تھا. بس آگے پیچھے ہلتا رہتا اور کھیلنے کے انتظار میں لگا رہتا. میں بھی درگزر سے کام لیتا کے چلو بچہ ہے.لیکن ایک دن ضبط کا دامن میرے ہاتھ سے چھوٹ گیا. اس دن صبح ہی سے میرے سر میں ایک عجیب درد تھا. غلام شبّیر سے مالش کرائی، پیناڈول کی دو گولیاں بھی کھایئں مگر درد زور آور بیل کی مانند سر میں چنگھاڑتا رہا. درد کے باوجود اور غلام شبّیر کے بہت منع کرنے پر بھی میں نے بچوں کا ناغہ نہیں کیا. نبیل بھی اس دن معمول سے کچھ زیادہ ہی شرارتیں کر رہا تھا. کبھی ایک کو چھیڑ کبھی دوسرے کو. جب اس کی حرکتیں حد سے بڑھ گیئں تو یکایک میرے دماغ پر غصّے کا بھوت سوار ہوگیا اور میں نے پاس رکھی لکڑی کی رحل اٹھا کر نبیل کے دے ماری. میں نے نشانہ تو کمر کا لیا تھا مگر خدا کا کرنا ایسا ہوا کے رحل بچے کی پیشانی پر جا لگی
خون بہتا دیکھ کر مجھے میرے سر کا درد بھول گیا اور میں نے گھبرا کر غلام شببر کو آواز دی. وہ غریب بھاگتا ہوا آیا اور بچے کو اٹھا کے پاس والے ڈاکٹر کے کلینک پر لے گیا. خدا کا شکر ہوا کے چوٹ گہری نہیں لگی تھی. مرہم پٹی سے کام چل گیا اور ٹانکے نا لگے. خیر باقی بچوں کو فارغ کر کے مسجد کے دروازے پے پوہنچا ہی تھا کے چادر میں لپٹی ایک عورت نے مجھے آواز دے کر روک لیا. میں نے دیکھا کے وہ عورت دہلیزپۓ کھڑی مسجد کے دروازے سے لپٹی رو رہی تھی  
چالیس پینتالیس کا سن ہوگا. معمولی شکل و صورت. سانولا رنگ اور چہرے پے پرانی چیچک کے گہرے داغ. آنسوؤں میں ڈوبی آنکھیں اور گالوں پر بہتا کالا سرما. زیور کے نام پے کانوں میں لٹکتی سونے کی ہلکی سی بالیاں اور ناک میں چمکتا سستا سرخ نگ کا لونگ. چادر بھی سستی مگر صاف ستھری اور پاؤں میں ہوائی چپپل 
.کیا بات ہے بی بی؟ کون ہو تم؟” میں نے حیرانگی سے اس سے پوچھا’
.میں نوراں ہوں مولوی صاحب.” اس نے چادر کے پلو سے ناک پونچھتے ہوئے کہا’ 
نوراں؟ نوراں کنجری؟” میرے تو گویا پاؤں تلے زمین ہی نکل گیئ. میں نے ادھر ادھر غلام شبّیر کی تلاش میں نظریں دوڑائیں مگر وہ تو نبیل کی مرہم پٹی کرا کے اور اس کو اس کے گھر چھوڑنے کے بہانے نجانے کہاں غایب تھا
جی. نوراں کنجری!” اس نے نظریں جھکاے اپنے نام کا اقرار کیا. مجھے کچھ دیر کے لئے اپنے منہ سے نکلنے والی اس کے گالی جیسی عرفیت پے شرمدگی ہوئی مگر پھر خیال آیا کے وہ طوائف تھی اور اپنی بری شہرت کی زمہ دار. شرمندگی اس کو ہونی چاہیے تھی، مجھے نہیں. پھر  اچانک مجھے احساس ہوا کے میری موتی جیسی مسجد میں اس طوائف کا نا پاک وجود کسی غلاظت سے کم نہیں تھا
باہر نکل کے کھڑی ہو. مسجد کو گندا نا کر بی بی”، میں نے نفرت سے باہر گلی کی جانب اشارہ کیا.
اس نے  کچھ اس حیرانگی سے آنکھ اٹھا کے میری طرف دیکھا کے جیسے اسے مجھ سے اس رویے کی امید نا ہو. ڈبڈبائی آنکھوں میں ایک لمحے کے لئے کسی انکہی فریاد کی لو بھڑکی. لیکن پھر کچھ سوچ کر اس نے آنسوؤں کے پانی میں احتجاج کے ارادے کو غرق کیا اور بغیر کوئی اور بات کئے چلی گی. میں نے بھی نا روکا کے پتا نہیں کس ارادے سے آیئ تھی. اتنی دیر میں غلام شبّیر بھی پوھنچ گیا
.کون تھی میاں جی؟ کیا چاہتی تھی؟” غالباً اس نے عورت کو تو دیکھا تھا مگر دور سے شکل نہیں پہچان پایا’
نوراں کنجری تھی. پتا نہیں کیوں آی تھی؟ مگر میں نے بھی وہ ڈانٹ پلائی کے آیندہ اس پاک جگہ کا رخ نہیں کرے گی.” میں نے داد طلب نظروں سے غلام شبّیر کی طرف دیکھا مگر اس کے چہرے پر ستائش کی جگہ افسوس نے ڈیرے ڈال رکھے تھے
وہ بیچاری دکھوں کی ماری اپنے بچے کا گلہ کرنے آی تھی میاں جی. نبیل کی ماں ہے . بچے کی چوٹ برداشت نہیں کر سکی. اور آپ نے  اس غریب کو ڈانٹ دیا.” غلام شبّیر نے نوراں کی وکالت کرتے ہوئے کہا
تو نبیل نوراں کا بیٹا ہے.ایسی حرکتیں کرے گا تو سزا تو ملے گی.  جیسی ماں ویسا بیٹا”. میں نے اپنی شرمندگی کو بیہودگی سے چھپانے کی کوشش کی. ایک لمحے کو خیال بھی آیا کے بچہ تو معصوم ہے اور پھر میں نے زیادتی بھی کی تھی. مگر پھر اپنے استاد ہونےکا خیال آیا تو سوچا کے بچے کی بھلائی کے لئے ہی تو مارا ہے. کیا ہوا. اور پھر ایک طوائف کو کیا حق حاصل کے مسجد کے امام سے شکایت کر سکے
.کتنے بچے ہیں نوراں کے؟” میں نے بات کا رخ بدلنے کی کوشش کی’
مسجد میں پڑھنے والے سب بچے نوراں کے ہیں میاں جی. اس کے علاوہ ایک گود کا بچہ بھی ہے. بس اس محلے میں صرف نوراں اپنے بچوں کو مسجد بھیجتی ہے. باقی سب لوگوں کے بچے تو آوارہ پھرتے ہیں.” غلام شبّیر کی آواز میں پھر نوراں کی وکالت گونج رہی تھی. میں نے بھنا کر جواب دینے کا ارادہ کیا ہی تھا  کے کوتوال صاحب کی گاڑی سامنے آ کر رکی. خود تو پتا نہیں کیسا آدمی تھا مگر بیوی بہت نیک تھی. ہر دوسرے تیسرے روز ختم کے نام پر کچھ نہ کچھ میٹھا بھجوا دیتی تھی. اس دن بھی کوتوال کا اردلی جلیبیاں دینے آیا تھا. گرما گرم جلیبیوں کی اشتہا انگیز مہک نے میرا سارا غصہ ٹھنڈا کر دیا اور نوراں کنجری کی بات آیی گیی ہوگیی    
یہ نبیل کو مار پڑنے کے کچھ دنوں بعد کا ذکر ہے. عشاء پڑھا کے میں غلام شبّیر سے ایک شرعیی معاملے پر بحث میں الجھ گیا تو گھر جاتے کافی دیر ہوگیی. مسجد سے باہر نکلے تو بازار کی رونق شروع تھی. بالکونیوں پر جھلملاتے پردے لہرا رہے تھے اور کوٹھوں سے ہارمونیم کے سر اور طبلوں کی تھاپ کی آواز ہر سو گونج رہی تھی. پان سگریٹ اور پھولوں کی دکانوں پر بھی دھیرے دھیرے رش بڑھ رہا تھا. اچانک میری نظر نوراں کے گھر کے دروازے پرجا پڑی. وہ باہر ہی کھڑی تھی اور ہر آتے جاتے مرد سے ٹھٹھے مار مار کر گپپیں لگا رہی تھی. آج تو اس کا روپ ہی دوسرا تھا. گلابی رنگ کا چست سوٹ، پاؤں میں سرخ گرگابی، ننگے سر پے اونچا جوڑا، جوڑے میں پروۓ موتیے کے پھول، میک اپ سے لدا چہرہ، گہری شوخ لپ سٹک، آنکھوں میں مسکارا اور مسکارے کی اوٹ سے جھانکتی ننگی دعوت
لاحول ولا قوت اللہ باللہ” میں نے طنزیہ نگاہوں سے غلام شبّیر کی جانب دیکھا. آخر وہ نوراں کا وکیل جو تھا’
چھوڑئیے میاں جی. عورت غریب ہے اور دنیا بڑی ظالم.” اس نے گویا بات کو ٹالنے کی کوشش کی. مگر میں اتنی آسانی سے جان چھوڑنے والا نہیں تھا
یہ بتاؤ میاں، جب اس کے گاہک آتے ہیں تو کیا بچوں کے سامنے ہی…………………….؟” میں نے معنی خیز انداز میں اپنا سوال ادھورا ہی چھوڑ دیا
میاں جی، ایک تو اس کے بچے صبح اسکول جاتے ہیں اور اس لئے رات کو جلدی سو جاتے ہیں. دوسرا، مہمانوں کے لئے باہر صحن میں کمرہ الگ رکھا ہے.” غلام شبّیر نے ناگوار سے لہجے میں جواب دیا
استغفراللہ! استغفراللہ!”. میں نے گفتگو کا سلسلہ وہیں ختم کرنا مناسب سمجھا کیوں کے مجھے احساس ہو چکا تھا کے غلام شبّیر کے لہجے سے جھانکتی ناگواری کا رخ نوراں کی جانب نہیں تھا     
اس کے بعد نوراں کا ذکر میرے سامنے تب ہوا جن دنوں میں اپنے اور زوجہ کے لئے حج بیت الله کی غرض سے کاغذات بنوا رہا تھا. اس غریب کی بڑی خواہش تھی کے وہ اور میں الله اور اس کے نبی پاک کی خدمت میں پیش ہوں اور اولاد کی دعا کریں. میرا بھی من تھا کے کسی بہانے سے مکّے مدینے کی زیارت ہوجاے. نام کے ساتھ حاجی لگا ہو تو شاید محکمے والے کسی اچھی جگہ تبدیلی کر دیں. زوجہ کا ایک بھانجا انہیں دنوں وزارت مذہبی امور میں کلرک تھا. اس کی وساطت سے درخواست کی قبولی کی کامل امید تھی. کاغذات فائل میں اکٹھے کیے ہی تھے کے غلام شبّیر ہاتھ میں کچھ اور کاغذات اٹھاے پوھنچ گیا
.میاں جی………ایک کام تھا آپ سے. اجازت دیں تو عرض کروں.” اس نے ہچکچاتے کہا’
ہاں ہاں میاں، کیوں نہیں. کیا بات ہے؟” میں نے داڑھی کے بالوں میں انگلیوں سے کنھگی کرتے ہوئے اس کو بیٹھنے کا اشارہ کیا
میاں جی، آپ کی تو وزارت میں واقفیت ہے. ایک اور حج کی درخواست بھی جمع کرا دیں.” اس نے ہاتھ میں پکڑے کاغذات میری جانب بڑھاے
دیکھو میاں غلام شبّیر، تم اچھی طرح جانتے ہو کے میں گھر بار تمہارے ذمے چھوڑ کر جا رہا ہوں. اور پھر تمہارے پاس حج کے لئے پیسے کہاں سے آے؟” میں نے کچھ برہمی سے پوچھا
.نہیں نہیں میاں جی. آپ غلط سمجھے. یہ میری درخواست نہیں ہے. نوراں کی ہے.” اس نے سہم کر کہا’
کیا؟ میاں ہوش میں تو ہو؟ نوراں کنجری اب مکّے مدینے جائے گی؟ اور وہ بھی اپنے ناپاک پیشے کی رقم سے؟ توبہ توبہ.” میرے تو جیسے تن بدن میں آگ لگ گیی یہ واہیات بات سن کر
میاں جی. طوائف ہے پر مسلمان بھی تو ہے. اور وہ تو الله کا گھر ہے. وہ جس کو بلانا چاہے بلا لے. اس کے لئے سب ایک برابر”. اپنی طرف سے غلام شبّیر نے بڑی گہری بات کی
اچھا؟ الله جس کو بلانا چاہے بلا لے؟ واہ میاں واہ. تو پھر میں درخواست کیوں جمع کراؤں؟ نوراں سے کہو سیدھا الله تعالیٰ کو ہی بھیج دے”. میں نے غصّے سے کہا اور اندر کمرے میں چلا گیا
زوجہ کا بھانجا بر خوردار نکلا اور الله کے فضل و کرم سے میری اور زوجہ کی درخواست قبول ہو گیئ. ٹکٹ کے پیسے کم پڑے تو اسی بھلی لوک کے جہیز کے زیور کام آ گئے. الله کا نام لے کر ہم روانہ ہوگئے. احرام باندھا تو گویا عمر بھر کے گناہ اتار کے ایک طرف رکھ دیے. الله کا گھر دیکھا اور نظر بھر کے دیکھا. فرائض پورے کرتے کرتے رمی کا دن آ گیا. بہت رش تھا. ہزاروں لاکھوں لوگ. ایک ٹھاٹھیں مارتا سفید رنگ کا سمندر. گرمی بھی بہت تھی. میرا تو دم گھٹنا شروع ہوگیا. زوجہ بیچاری کی حالت بھی غیر ہوتی جا رہی تھی. اوپر سے غضب کچھ یہ ہوا کے میرے ہاتھ سے اس غریب کا ہاتھ چھوٹ گیا. ہاتھ کیا چھوٹا، لوگوں کا ایک ریلا مجھے رگیدتا ھوا پتا نہیں کہاں سے کہاں لے گیا. عجب حالات تھے. کسی کو دوسرے کا خیال نہیں تھا. ہر کوئی بس اپنی جان بچانے کے چکّر میں تھا. میں نے بھی لاکھ اپنے آپ کو سمبھالنے کی کوشش کی مگر پیر رپٹ ہی گیا. میں نیچے کیا گرا، ایک عذاب نازل ہوگیا. ایک نے میرے پیٹ پر پیر رکھا تو دوسرے نے میرے سر کو پتھر سمجھ کر ٹھوکر ماری. موت میری آنکھوں کے سامنے ناچنے لگی. میں نے کلمہ پڑھا اور آنکھیں بںد کی ہی تھیں کے کسی الله کے بندے نے میرا دایاں ہاتھ پکڑ کے کھینچا اور مجھے سہارا دے کر کھڑا کر دیا
میں نے سانس درست کی اور اپنے محسن کا شکریہ ادا کرنے کے لئے اس کی طرف نگاہ کی. مانو ایک لمحے کے لئے تو بجلی ہی گر پڑی. کیا دیکھتا ہوں کے میرا ہاتھ مضبوطی سے تھامے نوراں کنجری کھڑی مسکرا رہی تھی. ‘یہ ناپاک عورت یہاں کیسے آ گیی؟ اس کی حج کی درخواست کس نے اور کب منظور کی؟’ میں نے ہاتھ چھڑانے کی بہت کوشش کی مگر کہاں صاحب. ایک آہنی گرفت تھی. میں نہیں چھڑا سکا. وہ مجھے اپنے پیچھے کھینچتی ہوئی ایک طرف لے گیی. اس طرف کچھ عورتیں اکٹھی تھی. اچانک میری نظر زوجہ پر پڑی جس کی آنکھوں میں آنسو تھے اور وہ بیتاب نگاہوں سے مجمع ٹٹول رہی تھی. ہماری نظریں ملیں تو سب کلفت بھول گیی. میں دوڑ کر اس تک پہنچا اور آنسو پونچھے
.کہاں چلے گئے تھے آپ؟ کچھ ہوجاتا تو؟’ پریشانی سے الفاظ اس کے گلے میں اٹک رہے تھے’
بس کیا بتاؤں آج مرتے مرتے بچا ہوں. جانے کون سی نیکی کام آ گیی. میں تو پاؤں تلے روندا جا چکا ہوتا اگر نوراں نہیں بچاتی.’ میں نے اس کو تسلی دیتے ہوئے کہا
.نوراں؟ ہماری پڑوسن نوراں؟ وہ یہاں کہاں آ گی؟ آپ نے کسی اور کو دیکھا ہوگا’. اس نے حیرانگی سے کہا’
ارے نہیں. نوراں ہی تھی’. میں نے ادھر ادھر نوراں کی تلاش میں نظریں دوڑایئں مگر وہ تو نجانے کب کی جا چکی تھی. بعد میں بھی اس کو بہت ڈھونڈا مگر اتنے جمے غفیر میں کہاں کوئی ملتا ہے
خدا خدا کر کے حج پورا ھوا اور ہم دونوں میاں بیوی وطن واپس روانہ ہوے. لاہور ائیرپورٹ پر غلام شببر پھولوں کے ہاروں سمیت استقبال کو آیا ہوا تھا
بہت مبارک باجی. بہت مبارک میاں جی. بلکہ اب تو میں آپ کو حاجی صاحب کہوں گا.’ اس نے مسکراتے ہوئے ہم دونوں کو مبارک دی تو میری گردن حاجی صاحب کا لقب سن کراکڑ گیی. میں نے خوشی سے سرشار ہوتے ہوے اس کے کندھے پے تھپکی دی اور سامان اٹھانے کا اشارہ کیا
ٹیکسی میں بیٹھے. میں نے مسجد اور گھر کی خیریت دریافت کی تو نوراں کا خیال آ گیا.
.میاں غلام شببر، نوراں کی سناؤ’. میرا اشارہ اس کی حج کی درخواست کے بارے میں تھا’
.اس بیچاری کی کیا سناؤں میاں جی؟ لیکن آپ کو کیسے پتا چلا؟’ اس نے حیرانگی سے میری جانب دیکھا’
.بس ملاقات ہوئی تھی مکّے شریف میں.’ میں نے اس کے لہجے میں چھپی اداسی کو اپنی غلط فہمی سمجھا’
مکّے شریف میں ملاقات ہوئی تھی؟ مزاق نا کریں میاں جی. نوراں تو آپ کے جانے کے اگلے ہی دن قتل ہوگیی تھی.’ اس نے گویا میرے سر پر بم پھوڑا
.,قتل ہوگیی تھی؟’ میں نے اچھنبے سے پوچھا’
جی میاں جی. بیچاری نے حج کے لئے پیسے جوڑ رکھے تھے. اس رات کوئی گاہک آیا اور پیسوں کے پیچھے قتل کر دیا غریب کو. ہمیں توصبح کو پتا چلا جب اس کے بچوں نے اس کی لاش دیکھی. شور مچایا تو سب اکٹھے ہوئے. پولیس والے بھی پہنچ گئے اور اس کی لاش پوسٹ مارٹم کے لئے لے گئے. ابھی کل ہی میں مردہ خانے سے میّت لے کے آیا ہوں. آج صبح ہی تدفین کی اس کی.’ غلام شببر کی آواز آنسوں میں بھیگ رہی تھی
.قاتل کا کچھ پتا چلا؟’ میں ابھی بھی حیرانگی کی گرفت میں تھا.’
پولیس کے پاس اتنا وقت کہاں میاں جی کے طوائفوں کے قاتلوں کو ڈھونڈہے. اس بیچاری کی تو نمازجنازہ میں بھی بس تین افراد تھے: میں اور دو گورکن.’ اس نے افسوس سے ہاتھ ملتے ہوئے کہا
.اور اس کے بچے؟ ان کا کیا بنا؟’ میں نے اپنی آنکھوں میں امڈ تی نمی پونچھتے ہوئے دریافت کیا’
نوراں کے بچے نہیں ہیں میاں جی.’ غلام شببر نے مرے کان میں سرگوشی کی. ‘طوائفوں کے محلے میں جب کوئی لڑکا پیدا ہوتا ہے تو زیادہ تر اسے راتوں رات اٹھا کر کوڑے کے ڈھیرپر پھینک دیا جاتا ہے. وہ سب ایسے ہی بچے تھے. نوراں سب جانتی تھی کے کس کے ہاں بچہ ہونے والا ہے. بس لڑکا ہوتا تو اٹھا کر اپنے گھر لے آ تی. کہنے کو تو طوائف تھی میاں جی مگر میں گواہ ہوں. غریب جتنا بھی کماتی بچوں پے خرچ کر دیتی. بس تھوڑے بہت الگ کر کے حج پے جانے کے لئے جمع کر رکھے تھے. وہ بھی اس کا قاتل لوٹ کر لے گیا
یہ بتاؤ غلام شببر، جب میں نے اس کی درخواست جمع کرانے سے انکار کیا تو اس نے کیا کہا؟’ مجھ پے حقیقتوں کے در کھلنا شروع ہو چکے تھے
بس میاں جی، کیا کہتی بیچاری. آنکھوں میں آنسو آ گئے. آسمان کی جانب ہاتھ اٹھاے اور کہنے لگی کے بس تو ہی اس کنجری کو بلاے تو بلا لے’. مجھ پر تو پوچھو گھڑوں پانی پڑ گیا. تاسف کی ایک آندھی چل رہی تھی. ہوا کے دوش میری خطائیں اڑرہی تھیں. گناہوں کی مٹی چل رہی تھی اور میری آنکھیں اندھیائی جا رہی تھیں
آپ کیوں روتے ہیں میاں جی؟ آپ تو ناپاک کہتے تھے اس کو.’ غلام شبّیر نے حیرانگی سے میری آنسوں سے تر داڑھی دیکھتے ہوئے کہا
کیا کہوں غلام شببر کے کیوں روتا ہوں. وہ ناپاک نہیں تھی. ناپاک تو ہم ہیں جو دوسروں کی ناپاکی کا فیصلہ کرتے پھرتے ہیں. نوراں تو الله کی بندی تھی. الله نے اپنے گھر بلا لیا.’ میری ندامت بھری ہچکیاں بند ہونے کا نام نہیں لے رہی تھیں اور غلام شببر نا سمجھتے ہوئے مجھے تسّلی دیتا رہا
ٹیکسی محلے میں داخل ہوئی اور مسجد کے سامنے کھڑی ہوگیی. اترا ہی  تھا کے نوراں کے دروازے پے نظر پڑی. ایک ہجوم اکٹھا تھا وہاں
کیا بات ہے غلام شببر؟ لوگ اب کیوں اکٹھے ہیں؟’
میاں جی میرے خیال میں پولیس والے ایدھی سنٹر والوں کو لے کے آے ہیں. وہ ہی لوگ بچوں کو لے جاییں گے. ان غریبوں کی کوئی دیکھ بھال کرنے والا نہیں ہے.’ غلام شببر نے کچھ سوچتے ہوئے کہا
میں نے زوجہ کا ہاتھ پکڑا اور غلام شببر کو پیچھے آنے کا اشارہ کرتے ہوئے نوراں کے دروازے کی جانب بڑھ گیا
.کہاں چلے میاں جی؟’ غلام شببر نے حیرانگی سے پوچھا’
نوراں کے بچوں کو لینے جا رہا ہوں. آج سے وہ میرے بچے ہیں. اور ہاں مسجد کا نام میں نے سوچ لیا ہے. آج سے اس کا نام نور مسجد ہوگا

Sunday 29 November 2015

Jobs in Pakistan Today 30-11-2015


مشرف نے مجھے خرید نے کیلئے 15 کروڑ روپے کی پیشکش کی ، حامد میر

مشرف نے مجھے خرید نے کیلئے 15 کروڑ روپے کی پیشکش کی ، حامد میر

اسلام آباد(ویب ڈیسک) ممتاز صحافی اور سینئر اینکر پرسن حامد میر نے کہا ہے کہ 3 نومبر2007 کی ایمر جنسی کے بعد سابق صدر پرویز نے مجھے خریدنے کی کوشش کی اور مجھے 15 کروڑ کی پیشکش کی۔ کیپیٹل ٹی وی کے پروگرام فرینڈلی اپوزیشن میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پرویزمشرف چاہتے تھے کہ میں ان کے ساتھ مل جاؤں مگر میں نے ان کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا

Unjustified to talk by Dr. Amir Liaqat Ali

محمد علی جناح کو ’قائداعظم‘ کاخطاب میرے نانانے دیاتھا: عامر لیاقت

ایک چول اور سہی
کراچی (مانیٹرنگ ڈیسک) انعام گھرپروگراموں سے شہرت پانیوالے ڈاکٹرعامر لیاقت حسین نے کہاہے کہ اُن کے نانا سردارعلی صابری نے محمد علی جناح کو قائد اعظم کا خطاب دیاتھا۔
نجی ٹی وی چینل کے مارننگ شو میں گفتگوکرتے ہوئے ڈاکٹرعامر لیاقت حسین نے بتایاکہ تحریک کی وجہ سے امی ابو زیادہ تر جیل میں رہے ہیں ، بچپن میں نانا کے پاس ہی رہتے ہیں اوراُنہوں نے ہی محمد علی جناح کو قائداعظم کا خطاب دیاتھا، علی گڑھ یونیورسٹی کے علاقے میں سردار علی صابری کے نام پر سڑک بھی ہے ۔
عامر لیاقت نے بتایاکہ ان کے نانا ابو بڑے آدمی تھے اور ایک ہی خواہش ہوتی تھی کہ سٹیٹ بینک میں کام کرنیوالی خالہ واپس آئیں اور قائداعظم کی تصویر والی اٹھنی لے کرآئیں، وہی میراکھلونا ہوتاتھا 

Can this be true?

ایران میں ایسے پہاڑ کا دعویٰ جہاں ڈیڑھ سال گزرنے پر ایڈز سے نجات ملتی ہے

تہران (مانیٹرنگ ڈیسک ) ایڈز کی مہلک بیماری جب سے معرضِ وجود میں آئی ہے تب سے لے کر اب تک اس بیماری سے کروڑوں انسان اپنی زندگیوں سے ہاتھ دھو بیٹھے ۔ ایڈز کے علاج کے حوالے سے مختلف دعوے بھی سامنے آ تے رہے ہیں لیکن اب ایران میں ایک ایسا بڑا اور پُر اسرار دعویٰ سامنے آیا ہے کہ وہاں ایک پہاڑ پر کچھ عرصہ گذارنے والے ایڈز کے مریض اس بیماری سے چھٹکارا حاصل کر لیتے ہیں ۔ 
العربیہ  کے مطابق ایرانی ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا ہے کہ خلیج عرب کی عسلویہ بندرگاہ سے متصل بوشہر گورنری میں ایک پہاڑ ایسا ہے جہاں ایڈز کے مریض کچھ وقت بیتانے پر صحتیاب ہوجاتے ہیں۔ یہ حیران کن خبر ایران کے علاوہ دنیا بھر کی میڈیا میں بھی شائع ہورہی ہے کیونکہ اس خبر کا مآخذ ایک برطانوی ڈاکٹر "ٹیم ھابکنیز" ہیں جنہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ عسلویہ بندرگاہ کے پہاڑ پر ڈیڑھ سال تک وقت گذارنے والے ایڈز کے مریض اس جان لیوا بیماری سے نجات حاصل کرسکتے ہیں۔برطانوی ڈاکٹر ہابنکینز نے دلچسپ اور حیران کن یہ انکشاف بھی کیا ہے کہ اس پہاڑ کی خصوصیت ہے کہ یہ کرہ ارض کا سورج سے قریب ترین پہاڑ ہے۔ سورج سے قربت کی بناء پر یہاں خاص قسم کی مقناطیسی شعاعیں پیدا ہوتی ہیں جو ایڈز کے انسداد اور علاج میں مدد گار ہے ۔ رپورٹ میں برطانوی اخبار "ٹائمز" کا بھی حوالہ شامل ہے جس میں برطانوی ڈاکٹر نے ایرانی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ عسلویہ پہاڑ کو "اینٹی ایچ ، آئی وی پہاڑ" کا نام دے اور اس کے قریب شہر آباد کرے تاکہ ایڈز کے مریضوں کو وہاں پر علاج کے لیے رکھا جا سکے

Sadar Mamnoun Hussain

ایک بہو کی حکایت ہے کہ نئی نئی شادی ہو کر سسرال میں آئی، مگر بولتی نہ تھی۔ساس بہت رنجیدہ تھی کہ ہائے بہو گونگی ہے بولتی کیوں نہیں۔
ساس نے اسے بہت سمجھایا کہ لڑکیاں تو بولتی ہوئی اچھی لگا کرتی ہیں 
تو کیوں نہیں بولتی۔
کہنے لگی کہ: میری ماں نے مجھے منع کیا تھا کہ ساس کے گھر بولنا مت!
ساس نے کہا، تیری ماں نے نجانے کیوں تجھے بولنے سے منع کر رکھا تھا، تم ضرور بولا کرو۔
ایک دن بہو سکوت کے سارے تالے توڑ کر خود ہی کہنے لگی، ارے جی کہ میں یوں پوچھوں اگر تمھارا بیٹا مر گیا تو تم میرا دوسرا نکاح کروگی یا یوں ہی ساری عمر بٹھائے رکھوگی ۔
ساس نے کہا ، بس بہو تو چپ رہا کر ،،،، مہینوں میں بولی تو یہ پھول جھڑے ، آگے کو نامعلوم کیا کیا ستم ڈھائے گی۔
پورے پاکستان کو شکایت تھی کہ صدرِ پاکستان بولتے ہی نہیں۔ان کی خاموشی پر لطائف بنائے گئے اور نجانے کیا کیا کچھ کہا گیا۔
تو جناب صدر نے آج خاموشی توڑی ہے اور کیسے توڑی ہے آپ بھی سنئے۔ فرماتے ہیں،
’’علمائے کرام قرضے پر سود کی گنجائش پیدا کریں۔‘‘
جنابِ والا! ہم معذرت خواہ ہیں ہم اس بات کا ادراک نہیں کر پائے کہ جس نے آپ کو خاموش رہنے کا کہا ہے کسی وجہ سے ہی کہا ہو گا۔ ہم آپ کی معذوری سمجھتے ہیں ، براہ کرم ایسے بولنے سے خاموش ہی رہئے۔

Wednesday 18 November 2015

دفع کرو‘ فیر ملن دا کی فیدہ“

منظر بہت دلچسپ تھا‘ بلاول بھٹو زلزلہ زدگان سے ملاقات کےلئے پشاور گئے‘ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اور شیری رحمان بھی ان کے ساتھ تھیں‘ ہمایوں خان کے گھر دعائیہ تقریب تھی‘ قائم علی شاہ اور شیری رحمان دونوں بلاول بھٹو سے پہلے وہاں پہنچ گئے‘ لوگ جمع تھے‘ لوگوں نے ان کا والہانہ استقبال کیا‘ لوگوں میں ایک جیالا بھی شامل تھا‘ جیالا آگے بڑھا اور اس نے قائم علی شاہ کے سر پر سندھی ٹوپی رکھ دی اور ان کے گلے میں اجرک ڈال دی‘ لوگوں نے جئے بھٹو کے نعرے لگائے‘ قائم علی شاہ نے اس کے بعد میڈیا سے گفتگو کی‘اس ساری کارروائی کے بعد مہمان اور میزبان دونوں خاموش بیٹھ گئے‘ میڈیا میں سے کسی رپورٹر نے شیری رحمان سے پوچھا ”بلاول بھٹو کب آئیں گے“ شیری نے جواب دیا ”وہ تھوڑی دیر میں پہنچ جائیں گے“ یہ گفتگو سید قائم علی شاہ کے سر پر ٹوپی رکھنے والا بھی سن رہا تھا‘ وہ فوراً اپنی جگہ سے اٹھا‘ تیر کی طرح قائم علی شاہ کے پاس گیا‘ ایک ہاتھ سے ان کے سر سے ٹوپی اتاری‘ دوسرے ہاتھ سے کندھے سے اجرک کھینچی اور اونچی آواز میں بولا ” سائیں معذرت کے ساتھ یہ دونوں بلاول بھٹو کےلئے ہیں“ شاہ صاحب جیالے کی شکل دیکھتے رہ گئے۔
یہ جیالا ہمارے معاشرے میں تنہا نہیں‘ آپ اگر اپنے دائیں بائیں دیکھیں تو آپ کو ایسے ہزاروں لاکھوں لوگ ملیں گے جنہیں جب یہ معلوم ہوتا ہے‘ وزیراعلیٰ کا باس آ رہا ہے تو یہ قائم علی شاہ کے سر سے ٹوپی اور کندھے سے اجرک اتارتے دیر نہیں لگاتے‘ یہ عملی لوگ ہیں‘ ان کا عمل صرف یہاں تک نہیں رہتا‘ یہ لوگ بعد ازاں قائم علی شاہ کے سر سے اتاری ہوئی ٹوپی اور اجرک بلاول بھٹو کے کندھوں اور سر پر رکھتے ہیں‘ جئے بھٹو کے فلک شگاف نعرے لگاتے ہیں اور اگلے دن جیالے کی مسکراتی ہوئی تصویر اخبارات میں شائع ہو جاتی ہے‘ مجھے یقین ہے‘ بلاول بھٹو نے جب رخصت ہوتے وقت وہ اجرک اور وہ ٹوپی اتاری ہو گی تو اسی جیالے نے ان سے بطور تبرک یہ دونوں واپس اچک لی ہوں گی اور یہ اب مستقبل میں آصف علی زرداری کے استقبال میں کام آئیں گی‘ یہ واقعہ صرف قائم علی شاہ کے ساتھ پیش نہیں آیا‘ ملک کے زیادہ تر سیاستدان‘ فوجی جرنیل‘ بیوروکریٹس اور میڈیا پرسنز اکثر اوقات ایسے حالات سے گزرتے رہتے ہیں‘ آپ کو یاد ہو گا صدر غلام اسحاق خان نے 1992ءمیں میاں نواز شریف کی حکومت برطرف کر دی تھی‘ میاں نواز شریف برطرفی کے چند ماہ بعد مانسہرہ گئے‘ یہ گاڑی سے نکلے تو لوگوں نے گھیر لیا‘ لوگ ”نواز شریف قدم بڑھاﺅ‘ ہم تمہارے ساتھ ہیں“ کے نعرے لگا رہے تھے‘ پورا شہر نعروں کی آواز سے گونج رہا تھا‘ میاں نواز شریف وہاں نماز کےلئے رکے تھے‘ وہ نعروں کی فلک شگاف آوازوں کے ساتھ آہستہ آہستہ مسجد کی طرف چل پڑے‘ لوگ بھی ان کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے‘ میاں نواز شریف نے جوں ہی مسجد کی دہلیز پر قدم رکھا‘ ہجوم چھٹ گیا اور نعروں والے متوالے غائب ہو گئے‘ تبلیغی جماعت کے جنرل جاوید ناصر میاں نواز شریف کے ساتھ تھے‘ جنرل صاحب نے مسکرا کر میاں نواز شریف سے کہا ”میاں صاحب جو قوم مسجد تک آپ کے قدموں سے قدم نہیں ملا سکی وہ آپ کا ساتھ کہاں تک دے گی“ جنرل پرویز مشرف ایسے درجنوں واقعات کی خوفناک مثال ہیں‘ آپ اس زمانے کی فوٹیج نکال کر دیکھ لیں جب جنرل پرویز مشرف کا اقتدار سوا نیزے پر تھا‘ آپ کو اس دور میں بے شمار عظیم لوگ جنرل مشرف کو دس بار یونیفارم میں منتخب کراتے نظر آئیں گے اور آپ کو ان کی محفل میں ناچنے والے بھی دکھائی دیں گے‘ سگار سلگا کر دینے والے بھی‘ مالش کرنے والے بھی اور طبلہ بجانے والے بھی لیکن پھر وہ لوگ کہاں چلے گئے؟ وہ لوگ آج بھی زندہ ہیں لیکن یہ آج مشرف کا نام سننے کے بعد وضو کےلئے چلے جاتے ہیں‘ جنرل پرویز مشرف نہ ہوتے تو دنیا شوکت عزیز کے نام تک سے واقف نہ ہوتی لیکن پھر ایک ایسا وقت بھی آیا جب شوکت عزیز نے لندن میں جنرل مشرف کا ٹیلی فون سننے سے انکار کر دیا‘ میں آج جب بھی ٹیلی ویژن پر ایک خاتون ایم این اے کو میاں نواز شریف کے گن گاتا دیکھتا ہوں تو میری ہنسی نکل جاتی ہے کیونکہ یہ وہ خاتون ہے جو 2008ءکے شروع میں روتے ہوئے ایوان صدر گئی‘ صدر کو بے چاری پر ترس آگیا‘ صدر کا ایک بینکر دوست انہیں مشکل میں دیکھ کر ان کےلئے دوبئی ائیر پورٹ کا ایک شاپنگ بیگ لایا تھا‘ صدر نے وہ بیگ بغیر کھولے خاتون کو دے دیا‘ خاتون بیگ لے کر گھر چلی گئی‘ بیگ میں آٹھ کروڑ روپے تھے لیکن وہ خاتون اب ٹیلی ویژن چینلز پر ”ہمارے وزیراعظم میاں نواز شریف“ کے دعوے بھی کرتی ہیں‘ پروٹوکول بھی انجوائے کرتی ہیں اور اگر کسی اینکر کے منہ سے جنرل مشرف کا نام نکل جائے تو یہ برا سا منہ بھی بناتی ہیں‘ میں یہاں محترم شیخ رشید کی مثال بھی پیش کروں گا‘ شیخ رشید سیاست کے نجومی ”ماموں“ ہیں‘ یہ جنرل مشرف کو سید پرویز مشرف کہتے تھے لیکن پھر آپ ان کا ہاتھ چھڑانا بھی دیکھئے‘ یہ آج جنرل مشرف کو لال مسجد کے اس واقعے کا بھی تنہا ذمہ دار قرار دیتے ہیں جس کے دوران یہ ٹیلی ویژن چینلز کو ”کالے کیمرے“ کہتے تھے‘ آپ کے پاس اگر کسی دن وقت ہو تو آپ ملک کے مختلف شہروں میں لگے ”جنرل راحیل شریف تیری عظمت کو سلام“ جیسے بینرز پر ریسرچ کریں‘ آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے‘ ان شہروں میں اس سے قبل ”جنرل کیانی تیری عظمت کو سلام“ اور اس سے قبل ”جنرل پرویز مشرف تیری عظمت کو سلام“ کے بینر لگے تھے اور ان کے نیچے انہی لوگوں کے نام درج تھے جن کے نام آج ان بینرز پر چمک رہے ہیں‘ یہ کون لوگ ہیں؟ یہ لوگ اسی شخص کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جس نے چند دن قبل قائم علی شاہ کے سر سے ٹوپی اور کندھوں سے اجرک کھینچ لی تھی‘ یہ باکمال لوگ ہیں‘ یہ ڈوبتے سورج کو عصر کے وقت ہی گڈ بائی کہہ دیتے ہیں اور نئے سورج کی پرستش صبح کاذب کے وقت ہی شروع کر دیتے ہیں‘ یہ اس قدر سمجھ دار لوگ ہیں کہ یہ چند روپے کی ٹوپی اور دوگز کی اجرک بھی ضائع نہیں کرتے‘ یہ لوگ ملک کے ہر شہر‘ ہر قصبے اور ہر طبقے میں موجود ہیں‘ آپ کو یہ ہر جگہ وافر مقدار میں ملیں گے۔
مجھے برسوں قبل گجرات شہر کے ایک نامہ نگار نے اپنی زندگی کا واقعہ سنایا‘ وہ ملک کے ایک بڑے اخبار کا نامہ نگار تھا‘ اخبار نے کسی غلط خبر پر اسے فارغ کر دیا‘ اگلے دن کوئی صاحب اپنے بیٹے کی شادی کا کارڈ دینے آ گئے‘ کارڈ پر نامہ نگار کے نام کے ساتھ اخبار کا نام لکھا تھا‘ نامہ نگار نے شرمندہ سا ہو کر کہا ”میں اب اس اخبار کے ساتھ وابستہ نہیں ہوں“ کارڈ دینے والے نے دوسرے بڑے اخبار کا نام لیا اور پوچھا ”کیا آپ اب اس اخبار میں چلے گئے ہیں“ نامہ نگار نے انکار میں سر ہلا دیا‘ کارڈ والے نے تیسرے اخبار کا نام لیا‘ نامہ نگار نے ایک بار پھر سر ہلا دیا‘ اس کے بعد کارڈ دینے والا اخبار کا نام بولتا جاتا اور نامہ نگار انکار میں سر ہلاتا جاتا یہاں تک کہ اس شخص کو جتنے اخبارات کے نام یاد تھے اس نے دہرا دیئے‘ جب اسے معلوم ہو گیا یہ نامہ نگار اب کسی اخبار کے ساتھ وابستہ نہیں تو اس نے کارڈ نامہ نگار کے ہاتھ سے واپس کھینچا‘ اٹھا اور بغیر سلام کئے واپس چلاگیا‘ میری اپنی زندگی میں بھی دو ایسے واقعات موجود ہیں‘ رانا بھگوان داس کو کون نہیں جانتا‘ رانا صاحب کمال انسان تھے‘ ہم عدلیہ میں ان کے کردار کو کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے‘ رانا صاحب کو میرے ساتھ یورپ جانے کا شوق تھا‘ میں انہیں لے کر فرانس‘ اٹلی اور سپین چلا گیا‘ اٹلی میں ایک پاکستانی نے ہمیں کھانے پر مدعو کیا‘ کھانے کا اہتمام اس کے گھر پر تھا‘ میزبان نے چند پاکستانیوں کو بھی بلایا‘ کھانے سے قبل گفتگو شروع ہوئی تو ایک صاحب نے رانا صاحب سے اونچی آواز میں کہا ” چیف جسٹس صاحب! آپ کی ریٹائرمنٹ میں تو چند ہفتے باقی ہیں“ رانا صاحب شریف آدمی تھے‘ انہوں نے تائید میں سر ہلایا اور جواب دیا‘ جی ہاں‘ اتنے ہفتے‘ اتنے دن اور اتنے گھنٹے‘ اس نے اگلا سوال پوچھا” کیا آپ کو ایکسٹینشن کی کوئی توقع ہے؟“ رانا صاحب نے انکار میں سر ہلایا اور جواب دیا ”میں ایکسٹینشن کے خلاف ہوں“ اس کے بعد محفل پر سناٹا طاری ہو گیا‘ اس سناٹے کو میزبان کی آواز ”آئیے کھاناشروع کریں“ نے توڑا‘ کھانے کے دوران بھی وہ صاحب لوگوں کو سرگوشیوں میں بتاتے رہے ”یہ ریٹائر ہونے والے ہیں‘ زیادہ تصویریں بنوانے کی ضرورت نہیں“ میں دوسرے واقعے کا براہ راست ہدف ہوں‘ مجھے ایک دوست کے ریفرنس سے ایک صاحب ملے‘ وہ فرانس میں رہتے ہیں‘ سیاست کے چسکے میں مبتلا ہیں‘ ایک آدھ الیکشن بھی ہار چکے ہیں‘ وہ مجھے تین چار بار ملے‘ میں ان کی جتنی خدمت کر سکتا تھا‘ میں نے کی‘ وہ مجھے ایک بار کہنے لگے ”آپ مجھے اپنے شو میں مدعو کریں“ میں نے عرض کیا ”یہ ممکن نہیں‘ ہمارا شو کرنٹ افیئرز سے متعلق ہوتا ہے اور آپ کسی بھی طرح اس میں فٹ نہیں ہوتے“ وہ ناراض ہو گئے‘ انہوں نے چند دن بعد میرے دوست سے پوچھا ”کیا جاوید چودھری کسی کا کام کرتا ہے“ دوست نے جواب دیا ”ناجائز ہو تو بالکل نہیں کرتا“ وہ فوراً بولے ”چھڈو دفع کرو‘ فیر ملن دا کی فیدہ“ میں نے سنا تو میری ہنسی نکل گئی‘ وہ صاحب بھی ”کردار“ کے پکے ہیں‘ وہ واقعی پھر مجھے کبھی نہیں ملے‘ ایک بار پیرس ائیرپورٹ پر آمنا سامنا ہوا تو وہ دور ہی سے ہاتھ ہلا کر نکل گئے‘ انہوں نے سلام بھی ضائع نہیں کیا‘ یہ کردار آپ کو گلی محلے سے لے کر ایوان اقتدار تک ہر جگہ نظر آئے گا۔
ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جس میں جنرل‘ چیئرمین‘ سیکرٹری‘ وزیر اور سائیں کا گھوڑا مر جائے تو دعا کےلئے پورا شہر جمع ہو جاتا ہے لیکن اگر سائیں خود انتقال فرما جائیں تو لوگ دعا تک کو فضول خرچی سمجھتے ہیں لیکن آپ جب بھی لوگوں سے لیڈرز کے بارے میں پوچھیں تو لیڈر انہیں لی کوان یو‘ مہاتیر محمد اور طیب اردگان جیسا چاہیے‘ یہ خود شادی کا ایک کارڈ‘ ایک سلام‘ ایک ٹوپی اور ایک اجرک قربان نہیں کریں گے لیکن دوسروں سے جان تک مانگ لیں گے‘ میں صدقے جاواں۔

Khan Javeed Khan of Basti Bland Khan Granted Bail in Bilal Murder Case

اس کیس کے بارے میں مزید پڑھنے کے لیئے نیچے دِئیے گئے لنک پر کلک کریں

Attack Case - Khan Javeed Khan

اس کیس کے بارے میں مزید پڑھیں







ناڑہ پولیس کی نااہلی سجیکوٹ آبشار پر آنے والے سیاحوں کو ڈاکوناکہ لگا کرلوٹنے لگے

  ناڑہ پولیس کی نااہلی سجیکوٹ آبشار پر آنے والے سیاحوں کو ڈاکوناکہ لگا کرلوٹنے لگے ایک ہفتہ میں سیاحوں کو لوٹنے کا دوسرا واقعہ رونما ہوا...