لاہور میں چند ماہ قبل ایک پوش علاقے میں ڈکیتی کی واردات ہوئی‘ خاتون کا کہنا تھا ” ڈاکو دراز قد تھا‘ وہ چھت کو ٹچ کر رہا تھا“ یہ ٹِپ غیر معمولی تھی‘ یہ علامت لاہور کے کرمنل ریکارڈ آفس (سی آر او) بھجوا دی گئی‘ یہ شعبہ لاہور میں 2002ءمیں بنا تھا‘ کروڑوں روپے سے مجرموں کا ریکارڈ رکھنے کےلئے سافٹ ویئر بھی خریدا گیا تھا لیکن یہ شعبہ بھی ملک کے دوسرے شعبوں کی طرح بے جسم اور بے روح رہا‘ یہ 13 سال تک روح کا انتظار کرتا رہا‘ اللہ نے کرم کیا اور پنجاب حکومت نے ایس پی عمر ریاض کو اس کھڈے کی لائین میں پھینک دیا‘ عمر ریاض ایک دیہاتی نوجوان ہے‘ اس نے بھینسوں کا چارہ کاٹتے کاٹتے 2006ءمیں سی ایس ایس کیا‘ پاکستان بھر میں پہلی پوزیشن حاصل کی اور پولیس سروس جوائن کر لی‘ یہ نوجوان ملک کے ان چند افسروں میں شامل ہے جنہوں نے تین سو روپے کی پتلون پہن کر سی ایس ایس کیا تھا‘ یہ پبلک سروس کمیشن کے انٹرویو میں ٹائی کے بغیر شامل ہوا تھا‘ انٹرویو کے دوران ٹائی کے بارے میں پوچھا گیا تو اس کا جواب تھا ”سر میرے پاس ٹائی تھی ہی نہیں‘ لگاتا کہاں سے“ میں نے بہت کم لوگوں کو عمر ریاض جتنا کتابوں کا دیوانہ دیکھا‘ یہ اپنا اضافی وقت لائبریریوں اور بک سٹالز میں گزارتا ہے‘ یہ ممکن نہیں کوئی اچھی کتاب آئی ہو اور عمر ریاض نے نہ پڑھی ہو‘ یہ حقیقتاً کتابی کیڑا ہے‘ یہ بیوروکریسی کے ان تین لوگوں میں شامل ہے جنہیں میں نے پڑھتے دیکھا‘ سیرت اصغر وفاقی سیکرٹری ہیں‘ یہ علم کا خزانہ ہیں‘ میں پچھلے بیس سال سے ان کے ہاتھوں میں کتابیں دیکھ رہا ہوں‘ میرا دوست عرفان جاوید دوسرا شخص ہے اور عمر ریاض تیسرا۔ یہ تینوں ہمیشہ حیران کر دیتے ہیں‘ ہماری پوری کابینہ میں صرف خرم دستگیر پڑھتے ہیں‘ یہ دل‘ دماغ اور علم تینوں میں وسیع ہیں‘ کیوں ہیں؟ مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی‘ میں عمر ریاض کی طرف واپس آتا ہوں‘ عمر ریاض کو اگست 2014ءمیں سی آر او میں پھینک دیا گیا‘ یہ ڈیپارٹمنٹ ڈی آئی جی انویسٹی گیشن لاہور کے دفتر کا حصہ ہے‘ عمر ریاض نے چارج لینے کے بعد مجرموں کا ڈیٹا جمع کرنا شروع کر دیا‘ ڈیپارٹمنٹ نے ایک سال میں اڑھائی لاکھ مجرموں کا ڈیٹا جمع کر لیا‘ ان میں لاہور کے مجرم بھی شامل ہیں‘ ڈیپارٹمنٹ کے پاس ان مجرموں کی تصویروں‘ قد کاٹھ‘ وزن‘ تعلیمی قابلیت‘ تاریخ پیدائش‘ عادتوں اور فنگر پرنٹس سمیت ضروری معلومات موجود ہیں لہٰذا جب خاتون نے بتایا ”ڈاکو دراز قد تھا‘ وہ چھت کو ٹچ کر رہا تھا“ تو یہ ٹِپ سی آر او بھجوا دی گئی‘ عمر ریاض نے اپنے ڈیٹا بینک میں موجود چھ فٹ سے لمبے ڈاکو تلاش کئے‘ کل گیارہ ڈاکو نکلے‘ خاتون کو ان 11 مجرموں کی تصویریں دکھائی گئیں اور خاتون نے دس سکینڈ میں ڈاکو کو شناخت کر لیا‘ پولیس نے چھاپہ مارا اور وہ ڈاکو ایک دن میں گرفتار ہو گیا۔
یہ مجرموں تک رسائی کا جدید ترین طریقہ ہے‘ یہ طریقہ ایف بی آئی کے بانی جے ایڈگر ہوور (J- Edger Hoover) نے وضع کیا تھا‘ اس نے مجرموں کی تفصیلات جمع کرنا شروع کیں اور کمال کر دیا‘ امریکا میں جہاں بھی کوئی مجرم پکڑا جاتا تھا‘ اس کی تفصیلات ایف بی آئی کے ہیڈ کوارٹر واشنگٹن ڈی سی میں پہنچا دی جاتی تھیں‘ ملک میں جب اس نوعیت کی دوبارہ واردات ہوتی تھی تو ایف بی آئی مجرموں کے ڈیٹا‘ طریقہ واردات‘ کرائم سین اور تصویروں کی مدد سے چند گھنٹوں میں مجرم تک پہنچ جاتی تھی‘ بائیو میٹرک سسٹم‘ فیس میچنگ مشین‘ فنگرپرنٹس میچنگ سسٹم اور ڈی این اے نے یہ کام مزید آسان کر دیا‘ امریکا کے پاس اب دنیا کے ہر اس شخص کا ڈیٹا موجود ہے جس نے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ اور مشین ریڈ ایبل پاسپورٹ بنوایا‘ جس نے کسی یورپی ملک کے ویزے کی درخواست دی یا جس نے موبائل فون استعمال کیا‘ ملک کی کسی بڑی لیبارٹری سے خون ٹیسٹ کرایا‘ ہوائی سفر کیا‘ میٹرک تک تعلیم حاصل کی یا پھر ای میل اکاﺅنٹ‘ فیس بک پیج یا ٹویٹر اکاﺅنٹ بنایا‘ دنیا کے ان تمام لوگوں کا ڈیٹا ایف بی آئی کے مین سرور میں محفوظ ہے‘ ایف بی آئی اب جہاں چاہتی ہے‘ جسے چاہتی ہے اور جب چاہتی ہے چند سیکنڈ میں تلاش کر لیتی ہے جبکہ ہم کراچی جیسے جدید شہروں میں ٹارگٹ کلرز کو بھی تلاش نہیں کر پاتے‘ کیوں؟ کیونکہ ہم ماڈرن دور کے یہ ماڈرن ہتھیار استعمال نہیں کر رہے‘ یہ درست ہے‘ ہماری حکومتوں کے پاس ایف بی آئی جتنے وسائل نہیں ہیں‘ ہم دنیا بھر کا ڈیٹا جمع نہیں کر سکتے لیکن ہم بِہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار کا مقابلہ تو کر سکتے ہیں‘ نتیش کمار جب نومبر 2005ءمیں وزیراعلیٰ بنا تو یہ صوبہ ہندوستان میں جرائم میں پہلے نمبر پر تھا‘ بالی ووڈ بِہار کے مجرموں پر فلمیں بنایا کرتا تھا لیکن پھر نتیش کمار نے بِہار کا امیج بدلنے کا فیصلہ کر لیا‘ اس نے کرمنلز آئیڈینٹی فکیشن کا جدید نظام لگایا‘ مجرم پکڑے‘ سزائیں دلائیں اور آگ میں جلتا ہوا بِہار پرامن ہو گیا‘ نتیش کمار نے پچھلے سات سالوں میں 75 ہزار مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا‘ یہ نتیش کمار کا وہ کارنامہ تھا جس کے ذریعے اس نے اکتوبر‘ نومبر 2015ءکے الیکشن میں بِہار سے بی جے پی کا جنازہ نکال دیا‘ ہم ایف بی آئی کا مقابلہ نہیں کر سکتے لیکن ہم کم از کم نتیش کمار کے ماڈل سے تو فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
ہمارے ملک میں 20 کروڑ لوگ ہیں‘ ہم میں سے دس کروڑ لوگ کبھی نہ کبھی تھانے‘ کچہری یا ہسپتال ضرور جاتے ہیں‘ کیا حکومت ان کا ڈیٹا جمع نہیں کر سکتی‘ ہمارے نادرا کے پاس جدید ترین سسٹم ہیں‘ نادرا ڈی این اے کو بھی شناختی عمل کا حصہ بنا لے‘ ملک کا جو بھی شہری شناختی کارڈ بنوائے‘ نادرا کا ملازم تصویر اور فنگر پرنٹ کے ساتھ اس کے جسم کا ایک بال بھی لے لے‘ بال سے ڈی این اے لیا جائے اور اسے بھی شہری کی شناخت کا حصہ بنا لیا جائے‘ دنیا کا ماہر ترین مجرم بھی موقع واردات پر کوئی نہ کوئی ایسی نشانی چھوڑ جاتا ہے جس سے ڈی این اے حاصل کیا جا سکتا ہے‘ آپ خود اندازہ کیجئے‘ اس ایک فیصلے سے پولیس کی مجرموں تک رسائی کتنی آسان ہو جائے گی‘ آپ اگر فوری طور پر یہ نہیں کر سکتے تو بھی آپ کم از کم پورے ملک کے مجرموں کا ڈیٹا ضرور جمع کر سکتے ہیں‘ آپ تھانوں میں آنے اور بلائے جانے والے تمام لوگوں کے کوائف‘ تصویریں‘ فنگر پرنٹس اور ڈی این اے لے لیں‘ آپ جیلوں اور حوالات میں محبوس لوگوں کا ڈیٹا بھی جمع کر لیں‘ آپ اس ڈیٹا کو نادرا کے مرکزی ڈیٹا اور چاروں صوبوں کے پولیس ڈیٹا سے جوڑ دیں‘ اس سے پولیس اور ملک دونوں کو کتنا فائدہ ہو گا‘ آپ اس وقت اس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے‘ دنیا اب پیرس دھماکوں کے چند گھنٹے بعد مجرموں کی اصل شناخت تک پہنچ جاتی ہے‘ یہ کیلیفورنیا میں فائرنگ کے بعد تاشفین ملک اورسید رضوان فاروق کے رشتے داروں تک بھی پہنچ جاتی ہے اور یہ کہروڑ پکا میں تاشفین کے سکول اور اس کے کلاس فیلوز اور سعودی عرب میں محلے کی اس دکان تک بھی پہنچ جاتی ہے جس سے تاشفین اور اس کا خاندان سودا خریدتا تھا لیکن ہم آج کے اس زمانے میں موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی لگا رہے ہیں یا پھر مقناطیس کے دور میں سوئی تلاش کرنے کےلئے بھوسے کے ڈھیر کو آگ دکھا رہے ہیں‘ ہم دنیا کے قدموں کے ساتھ قدم کیوں نہیں ملاتے‘ ہم نے کبھی سوچا؟۔
پنجاب میں گورننس کے تمام ایشوز کے باوجود یہ حقیقت ہے‘ صوبے میں چھوٹے بڑے بے شمار کام ہو رہے ہیں‘ پاکستان میں اب ایوب خان کے بعد پہلی بار انفراسٹرکچر بچھ رہا ہے‘ آپ اگر فرق دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ سندھ‘ بلوچستان اور کے پی کے جائیں اور اس کے بعد پنجاب بالخصوص لاہور اور راولپنڈی آئیں تو آپ کو واقعی فرق محسوس ہو گا‘ پنجاب کے سرکاری ادارے بھی دوسرے صوبوں کے مقابلے میں زیادہ فعال ہیں‘ حکومتی محکموں میں بھی کچھ نہ کچھ اصلاحات ہو رہی ہیں‘ مجھے پچھلے دنوں لاہور کے چلڈرن ہسپتال جانے کا اتفاق ہوا‘ ہسپتال کے سربراہ ڈاکٹر مسعود صادق نے بتایا ” ہمارے پچاس فیصد مریض بچوں کا تعلق کے پی کے سے ہوتا ہے“ میں نے وجہ پوچھی‘ انہوں نے بتایا ”پورے خیبر پختونخواہ میں بچوں کا کوئی ہسپتال نہیں چنانچہ وہاں دل کے مریض بچوں کے پاس صرف دو آپشن بچتے ہیں‘ یہ فوت ہو جائیں یا لاہور آ جائیں“ ڈاکٹر مسعود صادق نے بتایا ” ہم ان بچوں کا مفت علاج کرتے ہیں“ اسی طرح کسی صاحب نے بتایا‘ فیصل آباد کی ایگریکلچر یونیورسٹی میں بلوچستان کے سو طالب پڑھ رہے ہیں‘ حکومت نے نہ صرف ان کے تعلیمی اخراجات معاف کر دیئے ہیںبلکہ یہ انہیں میرٹ کے بغیر داخلے بھی دیتی ہے‘ یونیورسٹی کو ہدایت ہے‘ بلوچستان کا جو بھی نوجوان اپلائی کرے‘ اسے فوری طور پر داخلہ دیا جائے لیکن ان تمام خوبیوں کے باوجود ابھی بے شمار کام باقی ہیں‘ حکومت کو ابھی سی آر او جیسے مزید ادارے بھی بنانا ہیں اور ان کی خدمات کا دائرہ بھی وسیع کرنا ہے‘ سی آر او کے پاس ابھی صرف اڑھائی لاکھ لوگوں کا ڈیٹا ہے‘ اس کے پاس سافٹ ویئر بھی پرانے اور چھوٹے ہیں‘ میاں شہباز شریف کو چاہیے‘ یہ ڈیپارٹمنٹ کا دورہ بھی کریں‘ اسے ارفع کریم ٹاور جیسی کسی جدید عمارت میں بھی شفٹ کریں‘ یونیورسٹیوں کے طالب علم ہائیر کر کے پورے پنجاب کے مجرموں کا ڈیٹا بھی جمع کرائیں‘ پولیس کے تمام تھانوں کو یہ حکم بھی دیا جائے‘ یہ ایف آئی آر کی کاپی پہلے ”سی آر او“ میں بھجوائیں‘ سی آر او معلومات کو سنٹرل کمپیوٹر میں موجود مجرموں کے ڈیٹا کے ساتھ میچ کرے اور باقی کارروائی اس کے بعد کی جائے‘ حکومت سی آر او کو نادرا جتنی بڑی فنگر پرنٹ میچنگ مشین بھی فراہم کرے تا کہ یہ لوگ چند سیکنڈ میں فنگر پرنٹ میچ کر سکیں اور سی آر او کے پاس فیس میچنگ مشین بھی نہیں‘ یہ سافٹ وئیر عام مل جاتے ہیں‘ یہ یورپ کے چھوٹے چھوٹے ائیر پورٹس پر لگے ہیں‘ آپ اپنے حلئے میں خواہ کتنی ہی تبدیلی کر لیں‘ یہ چند سیکنڈ میں آپ کو آپ کی اصل تصویر کے ساتھ میچ کر دیتے ہیں‘ دنیا میں ٹیکنالوجی بہت آگے نکل چکی ہے‘ مجھے پچھلے دنوں کسی خاتون نے خفیہ نمبر سے میسج کیا‘ اس کا کہنا تھا‘ اس کا نام نادیہ ثاقب ہے اور وہ اسسٹنٹ کمشنر ہے‘ میرا بیٹا آئی ٹی کا معمولی سا کام کرتا ہے‘ اس نے دو منٹ میں بتا دیا‘ یہ خاتون خاتون نہیں‘ اس کا نام شاہد کھٹانہ ہے‘ یہ چیچہ وطنی کا رہنے والا ہے‘ یہ پاکستان تحریک انصاف کاجعلی کارکن ہے اور یہ نادیہ ثاقب کے نام سے اب تک درجنوں لوگوں کو لوٹ چکا ہے‘ ہم نے دس منٹ میں اس شخص کا پورا بیک گراﺅنڈ‘ اس کا ایڈریس‘ اس کی لوکیشن اور اس کے عزیزوں‘ رشتے داروں اور دوستوں کے نام‘ پتے اور فون نمبر نکال لئے‘ ہم اگر انفرادی سطح پر اتنا کر سکتے ہیں تو پھر حکومتیں کیوں نہیں کر سکتیں‘ شاید حکومتیں کرنا ہی نہیں چاہتیں‘ یہ 21 ویں صدی میں بھی غلیل سے سانڈ کو مارنا چاہتی ہیں اور مچھلی کو سورج کی روشنی میں تل کر کھانا چاہتی ہیں۔
بھائی صاحب آنکھیں کھولیں‘ دنیا کو 21 ویں صدی میں داخل ہوئے 15 سال ہو چکے ہیں‘ ہم 14 ویں صدی کی سوچ کے جوتے پہن کر 21 ویں صدی کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے‘ اٹھ جائیے‘ اس سے پہلے کہ 22 ویں صدی شروع ہو جائے‘ وہ صدی جس میں سائنس مجرموں کا ماں کے پیٹ میں ”این کاﺅنٹر“ کر دے‘ آپ پلیز اس سے پہلے پہلے اٹھ جائیں
یہ مجرموں تک رسائی کا جدید ترین طریقہ ہے‘ یہ طریقہ ایف بی آئی کے بانی جے ایڈگر ہوور (J- Edger Hoover) نے وضع کیا تھا‘ اس نے مجرموں کی تفصیلات جمع کرنا شروع کیں اور کمال کر دیا‘ امریکا میں جہاں بھی کوئی مجرم پکڑا جاتا تھا‘ اس کی تفصیلات ایف بی آئی کے ہیڈ کوارٹر واشنگٹن ڈی سی میں پہنچا دی جاتی تھیں‘ ملک میں جب اس نوعیت کی دوبارہ واردات ہوتی تھی تو ایف بی آئی مجرموں کے ڈیٹا‘ طریقہ واردات‘ کرائم سین اور تصویروں کی مدد سے چند گھنٹوں میں مجرم تک پہنچ جاتی تھی‘ بائیو میٹرک سسٹم‘ فیس میچنگ مشین‘ فنگرپرنٹس میچنگ سسٹم اور ڈی این اے نے یہ کام مزید آسان کر دیا‘ امریکا کے پاس اب دنیا کے ہر اس شخص کا ڈیٹا موجود ہے جس نے کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ اور مشین ریڈ ایبل پاسپورٹ بنوایا‘ جس نے کسی یورپی ملک کے ویزے کی درخواست دی یا جس نے موبائل فون استعمال کیا‘ ملک کی کسی بڑی لیبارٹری سے خون ٹیسٹ کرایا‘ ہوائی سفر کیا‘ میٹرک تک تعلیم حاصل کی یا پھر ای میل اکاﺅنٹ‘ فیس بک پیج یا ٹویٹر اکاﺅنٹ بنایا‘ دنیا کے ان تمام لوگوں کا ڈیٹا ایف بی آئی کے مین سرور میں محفوظ ہے‘ ایف بی آئی اب جہاں چاہتی ہے‘ جسے چاہتی ہے اور جب چاہتی ہے چند سیکنڈ میں تلاش کر لیتی ہے جبکہ ہم کراچی جیسے جدید شہروں میں ٹارگٹ کلرز کو بھی تلاش نہیں کر پاتے‘ کیوں؟ کیونکہ ہم ماڈرن دور کے یہ ماڈرن ہتھیار استعمال نہیں کر رہے‘ یہ درست ہے‘ ہماری حکومتوں کے پاس ایف بی آئی جتنے وسائل نہیں ہیں‘ ہم دنیا بھر کا ڈیٹا جمع نہیں کر سکتے لیکن ہم بِہار کے وزیراعلیٰ نتیش کمار کا مقابلہ تو کر سکتے ہیں‘ نتیش کمار جب نومبر 2005ءمیں وزیراعلیٰ بنا تو یہ صوبہ ہندوستان میں جرائم میں پہلے نمبر پر تھا‘ بالی ووڈ بِہار کے مجرموں پر فلمیں بنایا کرتا تھا لیکن پھر نتیش کمار نے بِہار کا امیج بدلنے کا فیصلہ کر لیا‘ اس نے کرمنلز آئیڈینٹی فکیشن کا جدید نظام لگایا‘ مجرم پکڑے‘ سزائیں دلائیں اور آگ میں جلتا ہوا بِہار پرامن ہو گیا‘ نتیش کمار نے پچھلے سات سالوں میں 75 ہزار مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچایا‘ یہ نتیش کمار کا وہ کارنامہ تھا جس کے ذریعے اس نے اکتوبر‘ نومبر 2015ءکے الیکشن میں بِہار سے بی جے پی کا جنازہ نکال دیا‘ ہم ایف بی آئی کا مقابلہ نہیں کر سکتے لیکن ہم کم از کم نتیش کمار کے ماڈل سے تو فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
ہمارے ملک میں 20 کروڑ لوگ ہیں‘ ہم میں سے دس کروڑ لوگ کبھی نہ کبھی تھانے‘ کچہری یا ہسپتال ضرور جاتے ہیں‘ کیا حکومت ان کا ڈیٹا جمع نہیں کر سکتی‘ ہمارے نادرا کے پاس جدید ترین سسٹم ہیں‘ نادرا ڈی این اے کو بھی شناختی عمل کا حصہ بنا لے‘ ملک کا جو بھی شہری شناختی کارڈ بنوائے‘ نادرا کا ملازم تصویر اور فنگر پرنٹ کے ساتھ اس کے جسم کا ایک بال بھی لے لے‘ بال سے ڈی این اے لیا جائے اور اسے بھی شہری کی شناخت کا حصہ بنا لیا جائے‘ دنیا کا ماہر ترین مجرم بھی موقع واردات پر کوئی نہ کوئی ایسی نشانی چھوڑ جاتا ہے جس سے ڈی این اے حاصل کیا جا سکتا ہے‘ آپ خود اندازہ کیجئے‘ اس ایک فیصلے سے پولیس کی مجرموں تک رسائی کتنی آسان ہو جائے گی‘ آپ اگر فوری طور پر یہ نہیں کر سکتے تو بھی آپ کم از کم پورے ملک کے مجرموں کا ڈیٹا ضرور جمع کر سکتے ہیں‘ آپ تھانوں میں آنے اور بلائے جانے والے تمام لوگوں کے کوائف‘ تصویریں‘ فنگر پرنٹس اور ڈی این اے لے لیں‘ آپ جیلوں اور حوالات میں محبوس لوگوں کا ڈیٹا بھی جمع کر لیں‘ آپ اس ڈیٹا کو نادرا کے مرکزی ڈیٹا اور چاروں صوبوں کے پولیس ڈیٹا سے جوڑ دیں‘ اس سے پولیس اور ملک دونوں کو کتنا فائدہ ہو گا‘ آپ اس وقت اس کا اندازہ بھی نہیں لگا سکتے‘ دنیا اب پیرس دھماکوں کے چند گھنٹے بعد مجرموں کی اصل شناخت تک پہنچ جاتی ہے‘ یہ کیلیفورنیا میں فائرنگ کے بعد تاشفین ملک اورسید رضوان فاروق کے رشتے داروں تک بھی پہنچ جاتی ہے اور یہ کہروڑ پکا میں تاشفین کے سکول اور اس کے کلاس فیلوز اور سعودی عرب میں محلے کی اس دکان تک بھی پہنچ جاتی ہے جس سے تاشفین اور اس کا خاندان سودا خریدتا تھا لیکن ہم آج کے اس زمانے میں موٹر سائیکل کی ڈبل سواری پر پابندی لگا رہے ہیں یا پھر مقناطیس کے دور میں سوئی تلاش کرنے کےلئے بھوسے کے ڈھیر کو آگ دکھا رہے ہیں‘ ہم دنیا کے قدموں کے ساتھ قدم کیوں نہیں ملاتے‘ ہم نے کبھی سوچا؟۔
پنجاب میں گورننس کے تمام ایشوز کے باوجود یہ حقیقت ہے‘ صوبے میں چھوٹے بڑے بے شمار کام ہو رہے ہیں‘ پاکستان میں اب ایوب خان کے بعد پہلی بار انفراسٹرکچر بچھ رہا ہے‘ آپ اگر فرق دیکھنا چاہتے ہیں تو آپ سندھ‘ بلوچستان اور کے پی کے جائیں اور اس کے بعد پنجاب بالخصوص لاہور اور راولپنڈی آئیں تو آپ کو واقعی فرق محسوس ہو گا‘ پنجاب کے سرکاری ادارے بھی دوسرے صوبوں کے مقابلے میں زیادہ فعال ہیں‘ حکومتی محکموں میں بھی کچھ نہ کچھ اصلاحات ہو رہی ہیں‘ مجھے پچھلے دنوں لاہور کے چلڈرن ہسپتال جانے کا اتفاق ہوا‘ ہسپتال کے سربراہ ڈاکٹر مسعود صادق نے بتایا ” ہمارے پچاس فیصد مریض بچوں کا تعلق کے پی کے سے ہوتا ہے“ میں نے وجہ پوچھی‘ انہوں نے بتایا ”پورے خیبر پختونخواہ میں بچوں کا کوئی ہسپتال نہیں چنانچہ وہاں دل کے مریض بچوں کے پاس صرف دو آپشن بچتے ہیں‘ یہ فوت ہو جائیں یا لاہور آ جائیں“ ڈاکٹر مسعود صادق نے بتایا ” ہم ان بچوں کا مفت علاج کرتے ہیں“ اسی طرح کسی صاحب نے بتایا‘ فیصل آباد کی ایگریکلچر یونیورسٹی میں بلوچستان کے سو طالب پڑھ رہے ہیں‘ حکومت نے نہ صرف ان کے تعلیمی اخراجات معاف کر دیئے ہیںبلکہ یہ انہیں میرٹ کے بغیر داخلے بھی دیتی ہے‘ یونیورسٹی کو ہدایت ہے‘ بلوچستان کا جو بھی نوجوان اپلائی کرے‘ اسے فوری طور پر داخلہ دیا جائے لیکن ان تمام خوبیوں کے باوجود ابھی بے شمار کام باقی ہیں‘ حکومت کو ابھی سی آر او جیسے مزید ادارے بھی بنانا ہیں اور ان کی خدمات کا دائرہ بھی وسیع کرنا ہے‘ سی آر او کے پاس ابھی صرف اڑھائی لاکھ لوگوں کا ڈیٹا ہے‘ اس کے پاس سافٹ ویئر بھی پرانے اور چھوٹے ہیں‘ میاں شہباز شریف کو چاہیے‘ یہ ڈیپارٹمنٹ کا دورہ بھی کریں‘ اسے ارفع کریم ٹاور جیسی کسی جدید عمارت میں بھی شفٹ کریں‘ یونیورسٹیوں کے طالب علم ہائیر کر کے پورے پنجاب کے مجرموں کا ڈیٹا بھی جمع کرائیں‘ پولیس کے تمام تھانوں کو یہ حکم بھی دیا جائے‘ یہ ایف آئی آر کی کاپی پہلے ”سی آر او“ میں بھجوائیں‘ سی آر او معلومات کو سنٹرل کمپیوٹر میں موجود مجرموں کے ڈیٹا کے ساتھ میچ کرے اور باقی کارروائی اس کے بعد کی جائے‘ حکومت سی آر او کو نادرا جتنی بڑی فنگر پرنٹ میچنگ مشین بھی فراہم کرے تا کہ یہ لوگ چند سیکنڈ میں فنگر پرنٹ میچ کر سکیں اور سی آر او کے پاس فیس میچنگ مشین بھی نہیں‘ یہ سافٹ وئیر عام مل جاتے ہیں‘ یہ یورپ کے چھوٹے چھوٹے ائیر پورٹس پر لگے ہیں‘ آپ اپنے حلئے میں خواہ کتنی ہی تبدیلی کر لیں‘ یہ چند سیکنڈ میں آپ کو آپ کی اصل تصویر کے ساتھ میچ کر دیتے ہیں‘ دنیا میں ٹیکنالوجی بہت آگے نکل چکی ہے‘ مجھے پچھلے دنوں کسی خاتون نے خفیہ نمبر سے میسج کیا‘ اس کا کہنا تھا‘ اس کا نام نادیہ ثاقب ہے اور وہ اسسٹنٹ کمشنر ہے‘ میرا بیٹا آئی ٹی کا معمولی سا کام کرتا ہے‘ اس نے دو منٹ میں بتا دیا‘ یہ خاتون خاتون نہیں‘ اس کا نام شاہد کھٹانہ ہے‘ یہ چیچہ وطنی کا رہنے والا ہے‘ یہ پاکستان تحریک انصاف کاجعلی کارکن ہے اور یہ نادیہ ثاقب کے نام سے اب تک درجنوں لوگوں کو لوٹ چکا ہے‘ ہم نے دس منٹ میں اس شخص کا پورا بیک گراﺅنڈ‘ اس کا ایڈریس‘ اس کی لوکیشن اور اس کے عزیزوں‘ رشتے داروں اور دوستوں کے نام‘ پتے اور فون نمبر نکال لئے‘ ہم اگر انفرادی سطح پر اتنا کر سکتے ہیں تو پھر حکومتیں کیوں نہیں کر سکتیں‘ شاید حکومتیں کرنا ہی نہیں چاہتیں‘ یہ 21 ویں صدی میں بھی غلیل سے سانڈ کو مارنا چاہتی ہیں اور مچھلی کو سورج کی روشنی میں تل کر کھانا چاہتی ہیں۔
بھائی صاحب آنکھیں کھولیں‘ دنیا کو 21 ویں صدی میں داخل ہوئے 15 سال ہو چکے ہیں‘ ہم 14 ویں صدی کی سوچ کے جوتے پہن کر 21 ویں صدی کا مقابلہ نہیں کر سکیں گے‘ اٹھ جائیے‘ اس سے پہلے کہ 22 ویں صدی شروع ہو جائے‘ وہ صدی جس میں سائنس مجرموں کا ماں کے پیٹ میں ”این کاﺅنٹر“ کر دے‘ آپ پلیز اس سے پہلے پہلے اٹھ جائیں
No comments:
Post a Comment