Monday, 21 December 2015

Selfi - Jawan Ulad kie Moth ka Dukh

مجھے ایک بار ٹونی روبنز کا ایک انٹرویو دیکھنے کا اتفاق ہوا‘ انٹرویو لینے والے نے پوچھا ”دنیا کا کون سا دکھ‘ کون سا نقصان ہے جس کا علاج ٹونی روبنز کے پاس نہیں“ ٹونی روبنز نے ہنس کر جواب دیا ”اولاد کا دکھ“ انٹرویو لینے والا خاموشی سے دیکھتا رہا‘ ٹونی نے لمبی سانس لی اور بولا ” میں لوگوں کو ہر قسم کے دکھ سے نکال لیتا ہوں لیکن میں آج تک ان والدین کا علاج نہیں کر سکا جنہوں نے کسی حادثے‘ کسی ان ہونی یا کسی بیماری میں اپنا بچہ کھو دیا ہو“ ٹونی کا کہنا تھا ”اولاد بالخصوص جوان اولاد کا نقصان ناقابل تلافی ہوتا ہے‘ دنیا کے کسی شخص کے پاس اس نقصان کا کوئی علاج موجود نہیں“ ٹونی روبنز کے الفاظ نے مجھے حیران کر دیا‘ کیوں؟ کیونکہ یہ کسی عام انسان کا اعتراف نہیں تھا‘ یہ دنیا کے ایک بڑے موٹی ویشنل سپیکر کا اعتراف تھا چنانچہ میں اسے مسترد نہیں کر سکتا تھا‘ ٹونی کی بات غلط نہیں تھی‘ اولاد انسان کی سب سے بڑی کمزوری ہوتی ہے‘ ہم اپنی زیادہ تر کمزوریوں پر قابو پا لیتے ہیں لیکن ہم سرتوڑ کوشش کے باوجود اولاد کی کمزوری سے باہر نہیں نکل پاتے‘ آپ اگر والد یا والدہ ہیں تو آپ بخوبی اندازہ کر سکتے ہیں‘ بچے یا بچی کی موت انسان کو کہاں کہاں سے زخمی کرتی ہے اور انسان پھر ان زخموں کے ساتھ کیسے زندگی گزارتا ہے؟ زندگی کا ایک عمل ہے‘ انسان پیدا ہوتا ہے‘ پڑھتا ہے‘ بڑا ہوتا ہے‘ کیریئر بناتا ہے‘ شادی کرتا ہے‘ بچے پیدا کرتا ہے‘ ان کی پرورش کرتا ہے‘ ان کی شادیاں کرتا ہے اور پھر دنیا سے رخصت ہو جاتا ہے‘ یہ عمل اگر اسی طرح چلتا رہے تو کوئی ایشو‘ کوئی مسئلہ نہیں ہوتا لیکن اگر کسی والد یا والدہ کو ادھیڑ عمری یا بڑھاپے میں اپنے کسی بچے کی لاش اٹھانی پڑ جائے‘ اس کا جنازہ پڑھنا پڑ جائے یا اس کی تدفین کرنی پڑ جائے تو آپ خود اندازہ کیجئے‘ ان بے چاروں پر کیا گزرے گی‘ اولاد کا غم بہت خوفناک ہوتا ہے‘ یہ چند گھنٹوں میں انسان کی ہڈیاں سُکیڑ دیتا ہے‘ والد 36 انچ کی پتلون پہن کر قبرستان جاتا ہے اور جب بچے کی تدفین کے بعد گھر لوٹتا ہے تو اس کی کمر 34 انچ ہو چکی ہوتی ہے‘ آپ اپنے اردگرد دیکھیں‘ آپ کو ایسے درجنوں لوگ ملیں گے جن کے سر پر بچے کی موت کا تودا گرا اور اس کے بعد ان لوگوں نے باقی عمر زندگی کا ماتم کرتے کرتے گزاری‘ وہ زندگی کا مرثیہ بن کر رہ گئے‘ موت برحق ہے‘ یہ آ کر رہتی ہے‘ دنیا میں جو بھی وجود ایک بار سانس لیتا ہے‘ اس کو موت کا ذائقہ ضرور چکھنا پڑتا ہے‘ خواہ وہ دیوتا ہو یا نبی‘ ولی ہو یا بادشاہ‘ ہم نے بھی مر جانا ہے اور ہماری آل اولاد نے بھی‘ یہ حقیقت ہے لیکن یہ حقیقت اگر اس حد تک رہے تو کوئی مضائقہ نہیں‘ مسئلہ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب اولاد موت کو خود دعوت دیتی ہے‘ یہ جان بوجھ کر ایسی ”ون ویلنگ“ کرتی ہے جس کے آخر میں موت کے سوا کچھ نہیں ہوتا اور یہ وہ موت ہے جو والدین کو عمر بھر زندہ نہیں رہنے دیتی۔
آپ راولپنڈی کی مثال لے لیجئے‘ ہمارے شہر میں چند دن قبل جمشید پرویز نام کا ایک 22 سالہ نوجوان چلتی ٹرین کے سامنے سیلفی بناتے ہوئے زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھا‘ یہ نوجوان ڈھوک رتہ کا رہنے والا تھا‘ طالب علم تھا‘ عمر 22سال تھی‘ نوجوان کا والد ریلوے میں درجہ چہارم کا ملازم ہے‘ جمشید تعلیم کے ساتھ ساتھ ایک جنرل سٹور پر 150 روپے دیہاڑی پر کام بھی کرتا ہے‘ جمشید کے دو بھائی اور تین بہنیں ہیں‘ یہ 15 دسمبر کو اپنے کلاس فیلو وسیم کے ساتھ کالج سے واپس آ رہا تھا‘ یہ دونوں مریڑھ چوک میں پہنچے تو ان کے دماغ میں ایک عجیب شیطانی خیال آیا‘ یہ پل پر چڑھے اور ریل کی پٹڑی پر چلنے لگے‘ سامنے سے ٹرین آرہی تھی‘ جمشید نے چلتی ٹرین کے ساتھ سیلفی بنانے کا فیصلہ کیا‘ دوست وسیم اس کو سمجھاتا رہ گیا لیکن جمشید نے موبائل نکالا‘ وسیم کو ساتھ کھڑا کیا اور سیلفی بنانے میں مصروف ہو گیا‘ ٹرین کی رفتار تیز تھی‘ وہ سیلفی سے پہلے ان تک پہنچ گئی‘ وسیم نے چھلانگ لگا دی لیکن جمشید ٹرین کی زد میں آ گیا‘ انجن نے اس کے جسم کے ٹکڑے کر دیئے‘ جمشید کی موت نے نہ صرف اس کے والدین اور بہن بھائیوں کو ہلا کر رکھ دیا بلکہ اس کا پورا محلہ اس وقت نفسیاتی مریض بن چکا ہے‘ یہ نوجوان چلا گیا‘ یہ دفن ہوگیا‘ اس کی قبر کی مٹی بھی عنقریب سخت ہو جائے گی لیکن اس کے والدین‘ اس کے بہن بھائی اور اس کے دوست کبھی اس کا غم نہیں بھلا پائیں گے‘ وہ نوجوان وسیم جس نے اپنے سامنے اس کے جسم کے پرزے اڑتے دیکھے‘ یہ اب باقی زندگی کیسے نارمل گزارے گا‘ آپ خود فیصلہ کیجئے‘ اسی قسم کا ایک واقعہ 21 نومبر کو فیصل آباد میں بھی پیش آیا‘ فیصل آباد کے چند نوجوانوں نے شرط لگائی‘ ہم میں سے کون زیادہ دیر تک ریل کی پٹڑی پرلیٹتا ہے‘ شرط لگ گئی‘ سوشل میڈیا پر اعلان کر دیا گیا اور وقت طے ہو گیا‘ نوجوان وقت مقررہ پر آئے اور ریل کی پٹڑی پر لیٹ گئے‘ ٹرین آئی اور تیزی سے ان کی طرف بڑھنے لگی‘ یہ ٹرین جب تھوڑی دور رہ گئی تو تمام دوست اٹھ کر بھاگ گئے لیکن 19 سال کا ظہیر لیٹا رہا‘ اس کے دوست اس کو پکارتے رہے لیکن اس کا کہنا تھا‘ ٹرین ابھی بہت دور ہے‘ یہ بحث جاری تھی کہ ٹرین آئی اور ظہیر کے اوپر سے گزر گئی اور وہ جیتے جاگتے نوجوان سے قیمے کی ڈھیری بن گیا‘ یہ بچہ انجینئرنگ کا طالب علم تھا‘ اسی طرح چند ماہ قبل گجرات کے چند نوجوانوں نے نمک کھانے کی شرط لگائی‘ ایک نوجوان پاﺅ بھر نمک کھا گیا‘ یہ اب ہسپتال میں آخری سانسیں گن رہا ہے اور اس کی بیوہ ماں پاگل ہو کر ہسپتال کی سیڑھیوں پر بیٹھی ہے‘ میں شوگر کا مریض ہوں‘ میں عموماً شوگر کے مریضوں سے ملتا رہتا ہوں‘ مجھے چند سال قبل شوگر کے دو انوکھے مریض ملے‘ ایک نوجوان پانچ سو روپے کی شرط جیتنے کےلئے روح افزاءکی پوری بوتل پی گیا تھا‘ یہ اس کے بعد سال بھر ہسپتالوں میں رہا‘ اس کی زندگی بچ گئی لیکن یہ شوگر کا خوفناک مریض بن گیا‘ یہ اب سسک سسک کر جی رہا ہے‘ اسی طرح ایک نوجوان شرط جیتنے کیلئے ایک کلو برفی کھا گیا‘ اس نے برفی کی شرط جیت لی لیکن شوگر کی شرط نہ جیت سکا‘ یہ اب تک شوگر کی وجہ سے اپنے پاﺅں اور دونوں گردوں سے محروم ہو چکا ہے‘ یہ اب مظلومیت اور اذیت کی خوفناک مثال ہے‘ لاہور میں میرے ایک جاننے والے کا بیٹا انرجی ڈرنک کی شرط جیت گیا‘ وہ بارہ ریڈبُل چڑھا گیا‘ دوستوں نے اس جیت پر تالیاں بجائیں‘ وہ داد سمیٹنے کےلئے کھڑا ہوا‘ اسے ہارٹ اٹیک ہوا‘ وہ گرا‘ تڑپا اور اس نے دوستوں کے سامنے جان دے دی‘ اسی طرح پچھلے دنوں چین میں بھی کسی نوجوان نے دس انرجی ڈرنک پی لئے تھے‘ اس کی طبیعت خراب ہو گئی‘ ہسپتال قریب تھا‘ ڈاکٹروں نے معائنہ کیا‘ پتہ چلا اس کے دل کا سائز بڑا ہو رہا ہے‘ دل آدھ گھنٹے میں اتنا بڑا ہو گیا کہ ڈاکٹر دل کو گنجائش دینے کےلئے اس کی پسلیاں کاٹنے پر مجبور ہوگئے‘ یہ نوجوان آج بھی ہسپتال میں پڑا ہے‘ اس کا دل ننگا ہے اور دیکھنے والے کھلی آنکھوں سے اس کے دل کو پھولتا اور سکڑتا دیکھتے ہیں اور عبرت پکڑتے ہیں۔
آپ اگر اخبارات کو غور سے پڑھیں تو آپ کو ان میں روزانہ ایسی خبریں ملیں گی جن میں نوجوانوں نے شرط لگائی اور وہ عمارت کی منڈیر پر چلتے ہوئے گر کر مر گئے‘ ریل کی پٹڑی پر لیٹ کر جان سے گزر گئے‘ برسات میں چڑھے ہوئے دریا کو تیر کر پار کرنے کی کوشش کی اور پانی میں بہہ کر زندگی کی سرحد سے باہر نکل گئے‘ ون ویلنگ شروع کی‘ کسی انڈر پاس کے ستون سے ٹکرائے اور دماغ کنکریٹ سے چپک گیا‘ یا پھر چائے پینے‘ مٹھائی کھانے یا جیکٹ کو آگ لگا کر پانی میں کودنے کا مقابلہ ہوا اور ندگی دکھوں کی خوفناک داستان بن کر رہ گئی یا پھر رات کے وقت ریس لگائی‘ گاڑی بے قابو ہوئی‘ اپنی زندگی ختم ہوئی اور یہ والدین کو پوری زندگی رونے دھونے کےلئے پیچھے چھوڑ گئے‘ یہ بچے‘ یہ شرطیں لگانے والے بچے بہت ظالم ہیں‘ یہ نہ جانے اپنے والدین‘ اپنے بہن بھائیوں اور اپنے عزیز رشتے داروں سے کس جرم کا بدلہ لیتے ہیں‘ یہ ان کو کس گناہ کی سزا دیتے ہیں‘ کاش اس ملک میں کوئی ادارہ‘ کوئی عدالت شرط لگانے پر پابندی لگا دے‘ کوئی ادارہ جمشید پرویز اور ظہیر جیسے نوجوانوں کی کہانیوں کو سلیبس کاحصہ بنا دے‘ کاش تعلیمی اداروں کی انتظامیہ ہی عبرت کا نشان بننے والے ان نوجوانوں کی تصویریں لیں‘ ان کی کہانیاں لکھیں اور کالج اور سکول کی دیواروں پر لگا دے تا کہ دوسرے طالب علموں کو عبرت ہو اور یہ اس قسم کی غلطی نہ کریں‘ میری جمشید اور ظہیر جیسے نوجوانوں کے والدین سے بھی درخواست ہے‘ آپ بھی مختلف تعلیمی اداروں میں جائیں‘ طالب علموں کو اپنے بیٹے کی کہانی سنائیں اور ان کو مشورہ دیں ”بیٹا آپ اپنی زندگی کی حفاظت کریں کیونکہ آپ تو چلے جائیں گے لیکن آپ کے بعد آپ کے والدین‘ آپ کے بہن بھائیوں کی زندگی قبرستان بن جائے گی‘ یہ لوگ باقی زندگی آپ کا تابوت اٹھا کر گزاریں گے‘ آپ ٹرین کی پٹڑی پر لیٹیں یا پھر چلتی ٹرین کے ساتھ سیلفی بنائیں مگر یہ یاد رکھیں‘ آپ کی اس حماقت‘ آپ کی اس غلطی کا تاوان آپ کی ماں پوری زندگی آہوں اور سسکیوں میں ادا کرے گی“ شاید آپ کے یہ لفظ سینکڑوں ہزاروں والدین کو اس غم سے بچا لیں جس کا علاج ٹونی روبنز جیسے لوگوں کے پاس بھی نہیں‘ شاید‘ شاید‘ آپ کی ایک وزٹ آپ کے مرحوم بچے کے کلاس فیلوز کو بچا لے

No comments:

ناڑہ پولیس کی نااہلی سجیکوٹ آبشار پر آنے والے سیاحوں کو ڈاکوناکہ لگا کرلوٹنے لگے

  ناڑہ پولیس کی نااہلی سجیکوٹ آبشار پر آنے والے سیاحوں کو ڈاکوناکہ لگا کرلوٹنے لگے ایک ہفتہ میں سیاحوں کو لوٹنے کا دوسرا واقعہ رونما ہوا...