Current Affairs, local News, Desi totakye, Desi food Recipes, Urdu Stories, information,Tips and Tricks
Wednesday, 30 September 2015
Tuesday, 29 September 2015
رومن اردو سے جان کب چھوٹے گی
آج سے پندرہ بیس سال پہلے اگر کوئی غلط اردو بولتا تھا تو کہا جاتا تھا کہ وہ ’گلابی اردو‘ بولتا ہے۔ گلابی اردو بولنے والے عموماً اردو میں انگریزی کی آمیزش زیادہ کرتے تھے، یعنی ان کا ہر جملہ مکمل اردو یا انگریزی میں ہونے کے بجائے مکس شدہ ہوتا تھا جس کا واحد مقصد دوسرے پر اپنی انگریزی دانی کا رعب ڈالنا ہوتا تھا۔
وہ زمانہ گزر گیا۔ اب جبکہ سوشل میڈیا کا دور ہے اور ہر شخص اپنی پسند کے موضوعات پر اپنی رائے کا اظہار زیادہ آسانی سے کر رہا ہے تو یہاں ہمیں گلابی اردو کی جگہ ’رومن اردو‘ نے آگھیرا ہے۔
گذشتہ بارہ پندرہ سالوں میں انٹرنیٹ اور موبائل کے سستے اور عام آدمی کی قوت خرید تک ہونے کی وجہ سے یہ اب عام ہوتی جا رہی ہے، جبکہ پاکستان کے خواص میں یہ بہت پہلے سے مقبول تھی۔ کہا جاتا ہے کہ رومن اردو کی ابتداء فیلڈ مارشل ایوب خان کے دور میں شروع ہوئی۔ چونکہ جنرل ایوب اردو رسم الخط پڑھ نہیں سکتے تھے، اس لیے ان کی تقریر رومن اردو میں ٹائپ کی جاتی تھی۔ اسی طرح کی بات سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے لیے بھی مشہور ہے۔ اس کے علاوہ حال ہی میں پی پی کے چیئرمین جناب بلاول بھٹو زرداری کے کراچی کے جلسے کی تقریر کے بارے میں بھی میڈیا میں یہ اطلاعات نشر ہوئیں کہ ان کو بھی تمام تقریر ’رومن اردو‘ میں پیش کی گئی۔
پاکستان میں جب انٹرنیٹ سستا ہوا اور عوام الناس نے اس کا عام استعمال شروع کیا تو چونکہ اس وقت محدود ٹیکنالوجی کی وجہ سے کمپیوٹر میں اردو سپورٹ موجود نہیں تھی، اس لیے رومن اردو استعمال کی جانے لگی۔ پہلے پہلے تو چیٹ روم میں چیٹنگ کے لیے رومن اردو کا استعمال شروع ہوا، اور بعد میں مختلف ویب فورمز میں رومن اردو میں پوسٹ عام ہونے لگی۔ لیکن جب فیس بک، اسکائپ، سنیپ چیٹ، ٹوئٹر، واٹس ایپ یا دیگر سوشل میڈیا سائٹس پر پاکستانیوں کا رش ہونا شروع ہوا تو اس وقت رومن اردو کا استعمال بہت تیزی سے بڑھنے لگا۔
شروع شروع میں مختلف آپریٹنگ سسٹم اردو کو سپورٹ نہیں کرتے تھے جس کی وجہ سے کمپیوٹر میں اردو زبان انسٹال کرنا کافی مشکل عمل تھا۔ اس کے علاوہ ہمارے ہاں عام تعلیمی اداروں میں اردو ٹائپنگ (اردو کمپیوزنگ) سکھائی نہیں جاتی جبکہ انگریزی ٹائپنگ نوکری کے لیے لازمی تصور کی جاتی ہے۔ اس لیے طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد باقاعدہ طور پر انگریزی ٹائپنگ سیکھتی ہے۔
ایک اور وجہ یہ ہے کہ یونیورسٹیوں میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے بھی انگریزی زبان میں اپنے خیالات لکھنے کی صلاحیت پر عبور نہیں رکھتے، جس کی وجہ سے وہ اپنے اردو خیالات کا انگریزی میں ترجمہ کرنے کے بجائے اس کو رومن اردو میں تحریرکرنے پر ترجیح دینے لگے۔
بعض ماہرین کے مطابق ہم لوگ بطورِ قوم انگریزی زبان سے مرعوب ہیں اور ہمیں شدید احساس کمتری ہے کہ ہمیں انگریزی زبان نہیں آتی، حالانکہ ہمیں چینی زبان نہیں آتی، جرمن نہیں آتی، فرانسیسی نہیں آتی، ہمیں کبھی اس پر شرمندگی نہیں ہوئی، لیکن انگریزی نہ آنے پر ہم خود کو کمتر سمجھتے ہیں۔
رومن اردو ٹائپ کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد اپنی سستی کی وجہ سے نہ تو انگریزی زبان میں مہارت حاصل کرتی ہے، اور نہ ہی اردو ٹائپنگ سیکھنے کی کوشش کرتی ہے کیونکہ وہ خیال کرتے ہیں کہ اردو ٹائپ کرنے سے ان کا علمی رعب باقی نہیں رہے گا۔ رومن اردو میں لکھنے سے ہمارا کچھ نہ کچھ بھرم تو قائم رہے۔
رومن اردو کے اصول
جس طرح ایک ہندوستانی فلم میں سلمان خان کا ڈائیلاگ ”مجھ پر ایک احسان کرنا کہ مجھ پر کوئی احسان نہ کرنا“ مشہور ہے، اسی طرح رومن اردو لکھنے کا اصول یہ ہے کہ اس کا کوئی اصول نہیں ہے۔
کیونکہ رومن اردو کوئی باقاعدہ تسلیم شدہ رسم الخط نہیں ہے، اس لیے نہ ہی اس کے کوئی قواعد و ضوابط ہیں، اور نہ ہی اس کی تعلیم کے لیے کوئی ادارہ موجود ہے۔ جس شخص کی جو مرضی ہو۔ اس کے دل کو جو ہجے بہتر لگیں، وہ وہی تحریر کرتا ہے (چاہے وہ سامنے والے شخص کی سمجھ سے باہر ہی کیوں نہ ہو)۔ انگریزی یا دیگر زبانوں کا کوئی لفظ آپ کو سمجھ نہ آئے تو آپ گوگل سے مدد لے سکتے ہیں لیکن رومن اردو کے مواد میں مدد کا صرف ایک ہی حل ہے، اور وہ یہ کہ جس نے تحریر کیا اس کو فون کر کے پوچھا جائے "بھائی جی یہ کیا لکھا ہے؟"
میرے خیال میں جس شخص کو سزا دینی ہو اس کو سوال یا جواب رومن اردو میں کر دیا جائے تو اس کے لیے کافی ہے، خاص کر اگر وہ چالیس سال سے زائد عمر کا ہے۔ میں نے کئی دفعہ ٹی وی شو کے میزبانوں کو "ناظرین کے کمنٹس" پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس وقت ان کو خاصی پریشانی ہوتی ہے۔ رومن اردو سے کچھ گزارہ تو ہو جاتا ہے مگر وہ طمانیت نہیں حاصل ہوتی جو اردو رسم الخط میں پڑھنے سے ہوتی ہے۔ اگر رومن اردو میں تحریر لمبی ہو جائے تو یہ ایک تھکا دینے والا اور کافی بیزار کن کام محسوس ہوتا ہے۔
بد قسمتی سے رومن اردو کا استعمال دن بدن بڑھ رہا ہے۔ پہلے صرف عوام آپس میں اس کو ایس ایم ایس اور سوشل میڈیا پر استعمال کرتے تھے۔ لیکن اب تو موبائل فون اور ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنی معلومات اور اشتہارات بھی رومن اردو میں بھیجتی ہیں۔ پریشان کن بات یہ ہے کہ نہ صرف پاکستان کی بڑی بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے الیکشن مہم میں ایس ایم ایس، بلکہ صوبائی حکومت کی طرف سے سرکاری پیغامات بھی موبائل فون پر اردو یا انگریزی کے بجائے رومن اردو میں موصول ہو رہے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ اردو کے فروغ، ترقی، تحفظ اور بقا کے لیے حکومت کیا کررہی ہے؟ اس وقت پاکستان میں وفاقی اور صوبائی سطح پر نجانے کتنے ہی ادارے ایسے ہیں جو اردو کے فروغ اور بقا کے لیے "دن رات کام" کررہے ہیں جن میں ’’ادارہ فروغ قومی زبان‘‘ (مقتدرہ قومی زبان)، مجلس ترقی ادب، اردو سائنس بورڈ، قومی لغت بورڈ، اکادمی ادبیات، نظریہ پاکستان فاؤئڈیشن، اردو لغت پاکستان، اقبال اکادمی، قائد اعظم اکادمی، مرکز تحقیقات اردو پروسیسنگ، وغیرہ وغیرہ ہیں جن کو حکومت کی جانب سے لاکھوں کروڑوں روپے کے ماہانہ فنڈز بھی مل رہے ہیں، لیکن ان حکومتی اداروں کی کارکردگی کیا ہے؟
خود مقتدرہ قومی زبان نے اپنی ویب سائٹ پر درج کیا ہوا کہ ادارۂ فروغِ قومی زبان (مقتدرہ قومی زبان) کا قیام 4 اکتوبر 1979ء کو آئین پاکستان 1973ء کے آرٹیکل 251 کے تحت عمل میں آیا تاکہ قومی زبان 'اردو' کے بحیثیت سرکاری زبان نفاذ کے سلسلے میں مشکلات کو دور کرے اور اس کے استعمال کو عمل میں لانے کے لیے حکومت کو سفارشات پیش کرے، نیز مختلف علمی، تحقیقی اور تعلیمی اداروں کے مابین اشتراک و تعاون کو فروغ دے کر اردو کے نفاذ کو ممکن بنائے۔
یہ ادارہ اپنے اہداف کے ساتھ کس قدر انصاف کر سکا اور کتنی کامیابی ملی، اس کا فیصلہ قارئین خود کریں۔
سوشل میڈیا اور کمپیوٹر میں اردو استعمال کیسے کریں؟
اردو زبان کا سوشل میڈیا پر استعمال بہت آسان ہے۔ آپ کو صرف اور صرف یہ کرنا ہے کہ آپ جو بھی آپریٹنگ سسٹم استعمال کر رہے ہیں۔ اس میں صرف اردو کی بورڈ انسٹال کرنا ہے۔
کمپیوٹر میں ’یونی کوڈ‘ کے آنے سے پہلے اردو انسٹال کرنا کافی مشکل کام تھا۔ لیکن اب نہیں۔ یونی کوڈ کی ایجاد سے اب کمپیوٹر میں ہر اہم زبان میں تحریر ممکن ہے۔ تقریباً تمام ہی بڑے سوفٹ ویئر یونی کوڈ کو سپورٹ کرتے ہیں، اس لیے کمپیوٹر میں اردو کا استعمال بہت آسان ہوگیا ہے۔ آپ کو اپنے کمپیوٹر سسٹم میں صرف اردو کی بورڈ ڈاؤن لوڈ کر کے انسٹال کرنے کی ضرورت ہوگی۔ اردو کی بورڈ بڑے اردو اخبارات کے علاوہ بے شمار ویب سائٹس پر مفت میں دستیاب ہے جس سے آپ اپنے کمپیوٹر میں اردو تحریر با آسانی شروع کر سکتے ہیں۔
Monday, 28 September 2015
Sunday, 27 September 2015
ہری پور - جاوید خان آف بستی بلند خان پر حملے کرنے میں مبینہ طور پر سم کے مالک کو قتل کردیا گیا
اس کیس کی مزید خبروں کے لیئے نیچے دیئے گئے لنک پر کلک کریں
Friday, 25 September 2015
Tuesday, 22 September 2015
Monday, 21 September 2015
Sunday, 20 September 2015
Friday, 18 September 2015
گدھے کا گوشت اور کھالیں
ا آرڈر دے دیایا آپ باربی کیو سے لطف اندوز ہورہے ہیں یا پھر آپ چپلی کباب کو للچائی نظروں سے دیکھ رہے ہیں تو آپ فوراً اپنا ارادہ بدل لیں‘ آپ قیمہ خریدنے کے فیصلے سے بھی منحرف ہو جائیں اور اگر ممکن ہو تو آپ چند ماہ کےلئے گوشت کی خریداری سے بھی تائب ہوجائیں‘ آپ کی صحت اور ایمان دونوں کےلئے بہتر ہو گا‘ یہ فیصلہ صرف آپ اور مجھے نہیں کرنا چاہیے بلکہ ملک کے تمام پارلیمنٹیرینز‘ تمام بیورو کریٹس‘ تمام فوجی افسروں‘ تمام وزرائ‘ تمام وزراءاعلیٰ‘ گورنر صاحبان‘ وزیراعظم اور صدر صاحب کو بھی یہ فیصلہ کرلینا چاہیے کیونکہ یہ لوگ بھی یقینا ان گوشت فروشوں کا نشانہ ہیں جو اس وقت معمولی سے مالی فائدے کےلئے عوام اور خواص دونوں کو گدھے کا گوشت کھلا رہے ہیں اور ہم عوام سمیت ملک بھر کے خواص 2013ءسے اس حرام خوری کے مرتکب ہیں۔
یہ معاملہ کیا ہے؟ ہمیں یہ جاننے کےلئے ذرا سا ماضی میں جانا ہو گا‘ ہمارے ملک میں چمڑا اور چمڑے کی مصنوعات تیسری بڑی ایکسپورٹ ہے‘ پاکستان نے 2014ءمیں 957 ملین ڈالر کی چمڑے کی مصنوعات ایکسپورٹ کیں‘ ملک میں چمڑا صاف کرنے والی آٹھ سو بڑی ٹینریز ہیں جبکہ پانچ لاکھ لوگ اس صنعت سے وابستہ ہیں‘پاکستان میں نیوزی لینڈ کے بعد دنیا کی شاندار ترین کھالیں پیدا ہوتی ہیں‘ پاکستان کی 2010ءتک اس شعبے میں مناپلی تھی لیکن پھر چین اس شعبے میں آگیا‘ اس نے دنیا بھر سے کھالیں جمع کرنا شروع کر دیں‘ چین نے پاکستان کی چمڑے کی صنعت پر بھی دستک دی‘ چینی کارخانہ دار پاکستان سے بھاری مقدار میں کھالیں خریدنے لگے‘ چینی تاجر پاکستان آئے تو انہوں نے دیکھا ملک میں بکرے‘ گائے اور بھینس کا چمڑا مہنگا جبکہ گدھوں اور خچروں کی کھالیں سستی ہیں‘ تحقیق کی‘ پتہ چلا‘ پاکستان مسلمان ملک ہے‘ مسلمان گدھوں اور خچروں کا گوشت نہیں کھاتے‘پاکستان میں جب گدھے اور خچر بیمار ہوتے ہیں تو انہیں کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے‘ یہ ویرانوں میں سسک سسک کر مر جاتے ہیں‘ گدھوں کے مرنے کے بعد شہروں کے انتہائی غریب لوگ ان کی کھال اتار لیتے ہیں اور گوشت چیلوں اور مردار خور جانوروں کےلئے چھوڑ دیا جاتاہے‘ یہ کھال بازار میں آٹھ سو سے بارہ سو روپے میں فروخت ہوتی تھی‘ یہ چینی تاجروں کےلئے بڑی خبر تھی کیونکہ گدھے اور خچر کی کھال گائے اور بھینس کی کھال سے زیادہ مضبوط اور خوبصورت ہوتی ہے‘ آپ اس کھال کومعمولی سا ”فنش“ کر کے گھوڑے کی کھال بنا لیتے ہیں اور گھوڑے کی کھال کا صوفہ 5 ہزار ڈالر سے شروع ہوتا ہے‘ چینی تاجروں نے ٹیکس اور ڈیوٹی دیکھی تو یہ بھی گائے کی کھال سے بہت کم تھی‘گدھے کی پوری کھال پر صرف 8 ڈالر کسٹم ڈیوٹی اور 20 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی تھی جبکہ اس کے مقابلے میں گائے کی کھال پر مربع فٹ کے حساب سے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے چنانچہ چینی تاجروں نے پاکستان سے گدھوں اور خچروں کی کھالیں خریدنا شروع کر دیں‘ کھالوں کی ڈیمانڈ پیدا ہوئی تو قیمت میں بھی اضافہ ہو گیا‘ ملک میں اس وقت گدھے کی وہ کھال جو 2013ءتک صرف آٹھ سو روپے میں ملتی تھی اس کی قیمت آج بارہ ہزار سے 20 ہزار روپے ہے جبکہ اس کے مقابلے میں گائے کی کھال تین ہزار سے ساڑھے تین ہزار اور بھینس کی کھال چار ہزار سے ساڑھے چار ہزار روپے میں دستیاب ہے‘
پاکستان میں دو سمندری پورٹس اور 13 ڈرائی پورٹس ہیں‘ آپ پچھلے دو سال میں ان 15 پورٹس سے گدھوں اور خچروں کی کھالوں کی ایکسپورٹس کا ڈیٹا نکلوا کر دیکھ لیں‘ آپ کے 14 طبق روشن ہو جائیں گے‘ میں صرف کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم کا ڈیٹا آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں‘ کراچی پورٹ سے جنوری 2013ءسے اپریل 2015ءتک گدھوں کی 96 ہزار 8 سو 13 کھالیں جبکہ پورٹ قاسم سے 89 ہزار کھالیں ایکسپورٹ ہوئیں‘ یہ کل ایک لاکھ 85 ہزار 8 سو 13 گدھے بنتے ہیں‘ آپ باقی 13ڈرائی پورٹس سے بک ہونے والی کھالوں کی تعداد صرف ایک لاکھ 15 ہزار لگا لیجئے تو یہ تین لاکھ بن جائیں گے گویا پاکستان میں دو برسوں میں تین لاکھ گدھے انتقال فرما گئے‘ یہ تعداد انتہائی الارمنگ ہے کیونکہ 2013ءسے قبل ملک سے گدھوں کی سالانہ صرف چار ہزار کھالیں برآمد ہوتی تھیں‘ اب سوال یہ ہے گدھوں کی کھالوں میں اچانک 30 گنا اضافہ کیسے ہو گیا؟ جواب بہت واضح اور سیدھا ہے‘ سندھ میں چالیس سے پچاس ہزار روپے میں صحت مند گدھا مل جاتا ہے‘ پنجاب میں اس کی قیمت 25 سے 30 ہزار روپے ہے‘ قصاب گدھا خریدتے ہیں‘ اس کا گلا کاٹتے ہیں‘ اس کی کھال اتارتے ہیں‘ یہ کھال 12 سے 20 ہزار روپے میں فروخت ہو جاتی ہے‘ گدھے کا وزن 150 سے 200 کلو گرام تک ہوتا ہے‘ کھال کے بغیر گدھے کا وزن 135 کلو رہ جاتا ہے‘ یہ لوگ گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بناتے ہیں اور یہ گوشت 300 روپے کلو کے حساب سے مارکیٹ میں بیچ دیا جاتا ہے‘یہ گوشت چالیس سے پچاس ہزار روپے میں فروخت ہو جاتا ہے‘ یوں ان لوگوں کو ہر گدھے سے دس ہزار سے 20 ہزار روپے بچ جاتے ہیں۔
یہ گوشت کہاں جاتا ہے؟ اس گوشت کا 80 فیصد حصہ ان سرکاری محکموں کے ”میس“ میں چلا جاتا ہے جو ”بلک“ میں گوشت خریدتے ہیں یا وہ بڑے ہوٹل‘ بڑے ریستوران اور گوشت کی وہ بڑی چینز جو روزانہ سینکڑوں من گوشت خریدتی ہیں‘ یہ گوشت انہیں سپلائی ہو جاتا ہے‘باقی بیس فیصد گوشت مارکیٹوں میں پہنچ جاتا ہے‘ گدھا اگر کٹا ہوا ہو‘ اس کی کھال اتری ہوئی ہو اور یہ قصاب کی دکان پر الٹا لٹکا ہو تو آپ خواہ کتنے ہی ماہر کیوں نہ ہوں آپ گدھے کو پہچان نہیں سکیں گے ‘ آپ کو وہ گدھا قصاب کی دکان پر بکرا‘ گائے کا بچھڑا یا پھر بھینس کا بچہ ہی محسوس ہو گا‘ کراچی‘ لاہور اور راولپنڈی کے چند کاریگر قصاب مزید فنکاری کرتے ہوئے گدھے کی ننگی گردن کے ساتھ بچھڑے کی سری لٹکا دیتے ہیں‘ یوں مرحوم گدھا دیکھنے والوں کو گدھا محسوس نہیں ہوتا‘ یہ بچھڑا لگتا ہے۔یہ معلومات کس حد تک درست ہیں‘ ہم اب اس سوال کی طرف آتے ہیں‘ مجھے ابتدائی معلومات اس مکروہ دھندے سے وابستہ ایک شخص نے دیں‘ یہ شخص توبہ تائب ہو گیا‘ اس نے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی اور مجھ سے رابطہ کیا‘ اس کا دعویٰ تھا ملک کے تمام مقتدر عہدیدار اس وقت تک گدھے کا گوشت کھا چکے ہیں
کیونکہ مکروہ کاروبار سے وابستہ لوگ جان بوجھ کر ان ایوانوں میں گوشت پہنچا رہے ہیں جو ملکی پالیسیاں بناتے ہیں‘ اس صاحب کا دعویٰ تھا یہ لوگ اس سلوک کے حق دار ہیں کیونکہ ملک میں اچانک گدھوں کی کھال کی ڈیمانڈ بڑھ گئی‘ ملک سے گدھے کم ہونے لگے اور گوشت کی قیمتوں میں کمی ہوگئی لیکن یہ لوگ خواب غفلت کے مزے لوٹتے رہے‘ ان میں سے کسی نے کسی سے نہ پوچھا ”گدھوں کی کھالوں کی ایکسپورٹ میں کیوں اضافہ ہو رہا ہے؟ اور اس اضافے کے عوام پر کیا اثرات ہوں گے؟“چنانچہ یہ لوگ دو برسوں سے اس بے حسی کا نقصان اٹھا رہے ہیں‘ یہ جانتے ہی نہیں ان کی ڈائننگ ٹیبل اور ان کے کچن میں کیا ہو رہا ہے اور انہیں گوشت سپلائی کرنے والے ان کے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔
یہ سطریں اگر وزیراعظم‘ صدر مملکت‘ وزیرخزانہ‘ سیکرٹری خزانہ‘ وزیر داخلہ‘ وزراءاعلیٰ اور ایف بی آر کے حکام تک پہنچ جائیں تو میری ان سے درخواست ہے‘ آپ فوری طور پر گدھوں کی کھالوں کی ایکسپورٹ کا ڈیٹا منگوائیں‘ اس ڈیٹا کا تجزیہ کریں اور اس کے بعد گدھوں کی کھال کی ایکسپورٹ پر پابندی لگا دیں‘ آپ اس کے بعد حرام جانوروں کی کھالوں کےلئے کوئی ٹھوس پالیسی بنائیں‘ میری عام شہریوں سے بھی درخواست ہے آپ گوشت خود خریدا کریں‘ آپ قصاب کی دکان پر خود جائیں اور اپنی نظروں کے سامنے گوشت کٹوائیں‘ میرے چند دوستوں نے گوشت کے سلسلے میں باقاعدہ ”مافیا“ بھی بنا رکھا ہے‘ یہ چار لوگ مل کر بکرا خریدتے ہیں‘ اسے اپنے سامنے ذبح کراتے ہیں‘ گوشت بنواتے ہیں اور گوشت کے چار حصے کر لیتے ہیں‘ یہ پانچ دس لوگ مل کر گائے بھی خرید لیتے ہیں‘ یہ اس کا گوشت بھی آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں‘ یہ لوگ قیمہ گھر پر اپنی مشین پر بناتے ہیں‘ یہ بھی اچھا فارمولا ہے کیونکہ صحت اور ایمان انسان کے قیمتی ترین اثاثے ہوتے ہیں‘ انسانوں کو ان اثاثوں کی حفاظت کرنی چاہیے‘ میری وزیراعظم اور وزیرخزانہ سے درخواست ہے آپ ایک لمحے کےلئے اپنے سالن کے ڈونگے میں جھانک لیں‘ مجھے یقین ہے آپ گدھوں کی کھالوں کی ایکسپورٹ پر پابندی لگا نے پر مجبور ہو جائیں گے
یہ معاملہ کیا ہے؟ ہمیں یہ جاننے کےلئے ذرا سا ماضی میں جانا ہو گا‘ ہمارے ملک میں چمڑا اور چمڑے کی مصنوعات تیسری بڑی ایکسپورٹ ہے‘ پاکستان نے 2014ءمیں 957 ملین ڈالر کی چمڑے کی مصنوعات ایکسپورٹ کیں‘ ملک میں چمڑا صاف کرنے والی آٹھ سو بڑی ٹینریز ہیں جبکہ پانچ لاکھ لوگ اس صنعت سے وابستہ ہیں‘پاکستان میں نیوزی لینڈ کے بعد دنیا کی شاندار ترین کھالیں پیدا ہوتی ہیں‘ پاکستان کی 2010ءتک اس شعبے میں مناپلی تھی لیکن پھر چین اس شعبے میں آگیا‘ اس نے دنیا بھر سے کھالیں جمع کرنا شروع کر دیں‘ چین نے پاکستان کی چمڑے کی صنعت پر بھی دستک دی‘ چینی کارخانہ دار پاکستان سے بھاری مقدار میں کھالیں خریدنے لگے‘ چینی تاجر پاکستان آئے تو انہوں نے دیکھا ملک میں بکرے‘ گائے اور بھینس کا چمڑا مہنگا جبکہ گدھوں اور خچروں کی کھالیں سستی ہیں‘ تحقیق کی‘ پتہ چلا‘ پاکستان مسلمان ملک ہے‘ مسلمان گدھوں اور خچروں کا گوشت نہیں کھاتے‘پاکستان میں جب گدھے اور خچر بیمار ہوتے ہیں تو انہیں کھلا چھوڑ دیا جاتا ہے‘ یہ ویرانوں میں سسک سسک کر مر جاتے ہیں‘ گدھوں کے مرنے کے بعد شہروں کے انتہائی غریب لوگ ان کی کھال اتار لیتے ہیں اور گوشت چیلوں اور مردار خور جانوروں کےلئے چھوڑ دیا جاتاہے‘ یہ کھال بازار میں آٹھ سو سے بارہ سو روپے میں فروخت ہوتی تھی‘ یہ چینی تاجروں کےلئے بڑی خبر تھی کیونکہ گدھے اور خچر کی کھال گائے اور بھینس کی کھال سے زیادہ مضبوط اور خوبصورت ہوتی ہے‘ آپ اس کھال کومعمولی سا ”فنش“ کر کے گھوڑے کی کھال بنا لیتے ہیں اور گھوڑے کی کھال کا صوفہ 5 ہزار ڈالر سے شروع ہوتا ہے‘ چینی تاجروں نے ٹیکس اور ڈیوٹی دیکھی تو یہ بھی گائے کی کھال سے بہت کم تھی‘گدھے کی پوری کھال پر صرف 8 ڈالر کسٹم ڈیوٹی اور 20 فیصد ریگولیٹری ڈیوٹی تھی جبکہ اس کے مقابلے میں گائے کی کھال پر مربع فٹ کے حساب سے ٹیکس وصول کیا جاتا ہے چنانچہ چینی تاجروں نے پاکستان سے گدھوں اور خچروں کی کھالیں خریدنا شروع کر دیں‘ کھالوں کی ڈیمانڈ پیدا ہوئی تو قیمت میں بھی اضافہ ہو گیا‘ ملک میں اس وقت گدھے کی وہ کھال جو 2013ءتک صرف آٹھ سو روپے میں ملتی تھی اس کی قیمت آج بارہ ہزار سے 20 ہزار روپے ہے جبکہ اس کے مقابلے میں گائے کی کھال تین ہزار سے ساڑھے تین ہزار اور بھینس کی کھال چار ہزار سے ساڑھے چار ہزار روپے میں دستیاب ہے‘
پاکستان میں دو سمندری پورٹس اور 13 ڈرائی پورٹس ہیں‘ آپ پچھلے دو سال میں ان 15 پورٹس سے گدھوں اور خچروں کی کھالوں کی ایکسپورٹس کا ڈیٹا نکلوا کر دیکھ لیں‘ آپ کے 14 طبق روشن ہو جائیں گے‘ میں صرف کراچی پورٹ اور پورٹ قاسم کا ڈیٹا آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں‘ کراچی پورٹ سے جنوری 2013ءسے اپریل 2015ءتک گدھوں کی 96 ہزار 8 سو 13 کھالیں جبکہ پورٹ قاسم سے 89 ہزار کھالیں ایکسپورٹ ہوئیں‘ یہ کل ایک لاکھ 85 ہزار 8 سو 13 گدھے بنتے ہیں‘ آپ باقی 13ڈرائی پورٹس سے بک ہونے والی کھالوں کی تعداد صرف ایک لاکھ 15 ہزار لگا لیجئے تو یہ تین لاکھ بن جائیں گے گویا پاکستان میں دو برسوں میں تین لاکھ گدھے انتقال فرما گئے‘ یہ تعداد انتہائی الارمنگ ہے کیونکہ 2013ءسے قبل ملک سے گدھوں کی سالانہ صرف چار ہزار کھالیں برآمد ہوتی تھیں‘ اب سوال یہ ہے گدھوں کی کھالوں میں اچانک 30 گنا اضافہ کیسے ہو گیا؟ جواب بہت واضح اور سیدھا ہے‘ سندھ میں چالیس سے پچاس ہزار روپے میں صحت مند گدھا مل جاتا ہے‘ پنجاب میں اس کی قیمت 25 سے 30 ہزار روپے ہے‘ قصاب گدھا خریدتے ہیں‘ اس کا گلا کاٹتے ہیں‘ اس کی کھال اتارتے ہیں‘ یہ کھال 12 سے 20 ہزار روپے میں فروخت ہو جاتی ہے‘ گدھے کا وزن 150 سے 200 کلو گرام تک ہوتا ہے‘ کھال کے بغیر گدھے کا وزن 135 کلو رہ جاتا ہے‘ یہ لوگ گوشت کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے بناتے ہیں اور یہ گوشت 300 روپے کلو کے حساب سے مارکیٹ میں بیچ دیا جاتا ہے‘یہ گوشت چالیس سے پچاس ہزار روپے میں فروخت ہو جاتا ہے‘ یوں ان لوگوں کو ہر گدھے سے دس ہزار سے 20 ہزار روپے بچ جاتے ہیں۔
یہ گوشت کہاں جاتا ہے؟ اس گوشت کا 80 فیصد حصہ ان سرکاری محکموں کے ”میس“ میں چلا جاتا ہے جو ”بلک“ میں گوشت خریدتے ہیں یا وہ بڑے ہوٹل‘ بڑے ریستوران اور گوشت کی وہ بڑی چینز جو روزانہ سینکڑوں من گوشت خریدتی ہیں‘ یہ گوشت انہیں سپلائی ہو جاتا ہے‘باقی بیس فیصد گوشت مارکیٹوں میں پہنچ جاتا ہے‘ گدھا اگر کٹا ہوا ہو‘ اس کی کھال اتری ہوئی ہو اور یہ قصاب کی دکان پر الٹا لٹکا ہو تو آپ خواہ کتنے ہی ماہر کیوں نہ ہوں آپ گدھے کو پہچان نہیں سکیں گے ‘ آپ کو وہ گدھا قصاب کی دکان پر بکرا‘ گائے کا بچھڑا یا پھر بھینس کا بچہ ہی محسوس ہو گا‘ کراچی‘ لاہور اور راولپنڈی کے چند کاریگر قصاب مزید فنکاری کرتے ہوئے گدھے کی ننگی گردن کے ساتھ بچھڑے کی سری لٹکا دیتے ہیں‘ یوں مرحوم گدھا دیکھنے والوں کو گدھا محسوس نہیں ہوتا‘ یہ بچھڑا لگتا ہے۔یہ معلومات کس حد تک درست ہیں‘ ہم اب اس سوال کی طرف آتے ہیں‘ مجھے ابتدائی معلومات اس مکروہ دھندے سے وابستہ ایک شخص نے دیں‘ یہ شخص توبہ تائب ہو گیا‘ اس نے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگی اور مجھ سے رابطہ کیا‘ اس کا دعویٰ تھا ملک کے تمام مقتدر عہدیدار اس وقت تک گدھے کا گوشت کھا چکے ہیں
کیونکہ مکروہ کاروبار سے وابستہ لوگ جان بوجھ کر ان ایوانوں میں گوشت پہنچا رہے ہیں جو ملکی پالیسیاں بناتے ہیں‘ اس صاحب کا دعویٰ تھا یہ لوگ اس سلوک کے حق دار ہیں کیونکہ ملک میں اچانک گدھوں کی کھال کی ڈیمانڈ بڑھ گئی‘ ملک سے گدھے کم ہونے لگے اور گوشت کی قیمتوں میں کمی ہوگئی لیکن یہ لوگ خواب غفلت کے مزے لوٹتے رہے‘ ان میں سے کسی نے کسی سے نہ پوچھا ”گدھوں کی کھالوں کی ایکسپورٹ میں کیوں اضافہ ہو رہا ہے؟ اور اس اضافے کے عوام پر کیا اثرات ہوں گے؟“چنانچہ یہ لوگ دو برسوں سے اس بے حسی کا نقصان اٹھا رہے ہیں‘ یہ جانتے ہی نہیں ان کی ڈائننگ ٹیبل اور ان کے کچن میں کیا ہو رہا ہے اور انہیں گوشت سپلائی کرنے والے ان کے ساتھ کیا کر رہے ہیں۔
یہ سطریں اگر وزیراعظم‘ صدر مملکت‘ وزیرخزانہ‘ سیکرٹری خزانہ‘ وزیر داخلہ‘ وزراءاعلیٰ اور ایف بی آر کے حکام تک پہنچ جائیں تو میری ان سے درخواست ہے‘ آپ فوری طور پر گدھوں کی کھالوں کی ایکسپورٹ کا ڈیٹا منگوائیں‘ اس ڈیٹا کا تجزیہ کریں اور اس کے بعد گدھوں کی کھال کی ایکسپورٹ پر پابندی لگا دیں‘ آپ اس کے بعد حرام جانوروں کی کھالوں کےلئے کوئی ٹھوس پالیسی بنائیں‘ میری عام شہریوں سے بھی درخواست ہے آپ گوشت خود خریدا کریں‘ آپ قصاب کی دکان پر خود جائیں اور اپنی نظروں کے سامنے گوشت کٹوائیں‘ میرے چند دوستوں نے گوشت کے سلسلے میں باقاعدہ ”مافیا“ بھی بنا رکھا ہے‘ یہ چار لوگ مل کر بکرا خریدتے ہیں‘ اسے اپنے سامنے ذبح کراتے ہیں‘ گوشت بنواتے ہیں اور گوشت کے چار حصے کر لیتے ہیں‘ یہ پانچ دس لوگ مل کر گائے بھی خرید لیتے ہیں‘ یہ اس کا گوشت بھی آپس میں تقسیم کر لیتے ہیں‘ یہ لوگ قیمہ گھر پر اپنی مشین پر بناتے ہیں‘ یہ بھی اچھا فارمولا ہے کیونکہ صحت اور ایمان انسان کے قیمتی ترین اثاثے ہوتے ہیں‘ انسانوں کو ان اثاثوں کی حفاظت کرنی چاہیے‘ میری وزیراعظم اور وزیرخزانہ سے درخواست ہے آپ ایک لمحے کےلئے اپنے سالن کے ڈونگے میں جھانک لیں‘ مجھے یقین ہے آپ گدھوں کی کھالوں کی ایکسپورٹ پر پابندی لگا نے پر مجبور ہو جائیں گے
Wednesday, 16 September 2015
Jobs Available in Abu Dhabi - United Arab Emirates
DRIVER Required in Abu Dhabi
·
Employment Type:Full Time
·
Monthly Salary:Unspecified
·
Job Role:Driver
·
Minimum Work Experience:0-1 Years
·
Minimum Education Level:High-School / Secondary
·
Listed By:Employer
·
Company Size:11-50 Employees
·
Career Level:Junior
Description:
WALK-IN INTERVIEWWe are hiring "DRIVER”
DRIVERShould have Valid UAE DRIVING LICENSE
Can join immediately
Company Provides:
1250 – Basic Salary
500 – Accommodation Allowance
150 – Food Allowance
Please bring your most updated CV on the interview day.
Interview Location:
Flat # 1606, P Floor (SSC Recruitment Company)
Sheikh Ahmed Bin Sarour Al Dahiri Bldg.
Khalifa St. Abu Dhabi UAE
Landmark: Behind National Bank of Abu Dhabi, same building as Al Hanae Studio and Al Waseem Baqala
In between Splash Bldg and Al Rousha Restaurant
Interview DATE: September
19 2015 – Saturday
Interview Timing: 11:00 AM to 2:00 PM
Dress Code: FORMAL
Interview Timing: 11:00 AM to 2:00 PM
Dress Code: FORMAL
---------------------------------------------------------------------------------------------------------
DRIVER CUM FOREMAN Required in Abu Dhabi
·
Employment Type:Full Time
·
Monthly Salary:Unspecified
·
Minimum Work Experience:2-5 Years
·
Minimum Education Level:High-School / Secondary
·
Listed By:Employer
·
Company Size:1-10 Employees
·
Career Level:Senior
Description:
DRIVER CUM FOREMAN NEEDED FOR
INTERIOR DECOR COMPANY BASED ON ABU DHABI ,SHOULD HAVE VALID UAE DRIVING
LICENSE AND EXPERIENCE IN SAME FIELD,
Send your Cv: accounts@innerconceptuae.com
Send your Cv: accounts@innerconceptuae.com
---------------------------------------------------------------------------------------------------------
Looking for Driver - Light
Vehicle مطلوب سائق رخصة قيادة خفيفة
·
Company Name: Asalit alsham restaurant
· Employment Type: Full Time
· Monthly Salary: 2,000 - 3,999 AED
· Benefits: visa , accommodations and meals
· Minimum Work Experience: 0-1 Years
· Minimum Education Level: High-School / Secondary
· Career Level:
Description:
looking for Driver for Restaurant in
Musafah Shabiya 12 for Delivery has experiences in Musfaha Area
-------------------------------------------------------------------------------------------------------
-------------------------------------------------------------------------------------------------------
MULTIPLE VACANCIES IN MEDICAL
CENTER
·
Company Name: Dublin Health Services Management
·
The
following positions are available:
1. light vehicle driver
2. heavy vehicle driver
3. Radiology Technician
4. Physiotherapist
5. Female housekeeping
send your CV or come for walk-in interview to 205 Bin Sagar Tower, Fatima Bint Mubarak St, Abu Dhabi
1. light vehicle driver
2. heavy vehicle driver
3. Radiology Technician
4. Physiotherapist
5. Female housekeeping
send your CV or come for walk-in interview to 205 Bin Sagar Tower, Fatima Bint Mubarak St, Abu Dhabi
----------------------------------------------------------------------------------------------------------
Bus Driver
·
Company Name: GRAND SAHARA PASSENGERS TRANSPORT
E
Bus
Driver required urgently , Salary Aed 2300 ( Excluding Overtime charges )
Only Serious callers Please (050/8222390 )
Only Serious callers Please (050/8222390 )
----------------------------------------------------------------------------------------------------------
needed
urgently....kitchen helper and driver
·
Company Name: Almansaf Almoloki
· Description:
A
restaurant with good reputation seeks to hire kitchen helper and driver
..delivery car..employment visa and full benefits.
We r located in mussafah shabia 11. If interested whatsapp at 0566606838 . For immediate employment.
We r located in mussafah shabia 11. If interested whatsapp at 0566606838 . For immediate employment.
------------------------------------------------------------------------------------------------------------
Light
Vehicle Driver
·
well
organized company looking to hare light vehicle driver an immediate position.
Visit visa is more advanced. Send you CV contact 052/9038211
Subscribe to:
Posts (Atom)
ناڑہ پولیس کی نااہلی سجیکوٹ آبشار پر آنے والے سیاحوں کو ڈاکوناکہ لگا کرلوٹنے لگے
ناڑہ پولیس کی نااہلی سجیکوٹ آبشار پر آنے والے سیاحوں کو ڈاکوناکہ لگا کرلوٹنے لگے ایک ہفتہ میں سیاحوں کو لوٹنے کا دوسرا واقعہ رونما ہوا...
-
Protection of Animals Rights in Islam Islamic Shariah has well taken care of animal rights the same way as it has protected human righ...