عبدل واجد خان صاحب کی تحریر
''ظالم '' مرد '' مظلوم '' عورت
پچھلے کچھ دنوں سے عورت کی مظلومیت پر مسلسل اتنے اسٹیٹس لکھے گئے کہ انہیں پڑھ کر آنکھوں میں آنسو آگئے اور فرط جذبات میں ہم نے بھی بلا آخر وہ قلم اٹھالیا جسے فقط ناڑا ڈالنے واسطے استعمال کرنے کا عزم مصمم کیا تھا
سچ کہیں تو بے شک تن تنہا یہ مرد ہی ہے جو اس دنیا میں فساد کی جڑ ہے ، داماد تو اس مرد سسرے کو ایک آنکھ نہیں بھاتا یہ ہمیشہ اس کے کام میں کیڑے نکالتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ تنگ آکر شادی کو بربادی کہتا پھرتا ہے اور یہ کمبخت مرد ہی ہے جو گھر میں اپنی بہو کو برداشت نہیں کرتا اور مختلف حیلے بہانوں سے اسے اتنا تنگ کردیتا ہے کہ وہ الگ گھر چاہنے لگتی ہے ، کوئی بہو نہیں جو الگ گھر میں خوشی سے رہنا چاہتی ہو یہ خود غرض احسان فراموش مرد ہی ہے جو بیمار اور بوڑھے ماں باپ کو ان کی بدحالی پر چھوڑ کر الگ گھر بسانا چاہتا ہے ایک عورت اسے روکنے کیلئے کتنا زور لگاتی ہے ، ماں باپ کی دوباتیں سن کر برداشت کرنے کو کتنی نصیحت کرتی ہے کتنا ارمان ہوتا ہے ان کے دل میں ساس سسر کی خدمت کا ، لیکن ظالم مرد اسکے ارمانوں کا خون کرکے اسے الگ گھر میں لا پٹختا ہے ،
عورت کبھی دوسری عورت کی غیبت نہیں کرتی ،اور مردوں کا اسکے بغیر گزارا نہیں ،ہمیشہ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے رہینگے ،
عورت کبھی اپنے کپڑوں زیورات سامان وغیرہ کا دوسری عورت سے تقابل نہیں کرتی ،اور یہ نامعقول مرد جب دیکھو آج رشید نے آسمانی رنگ کاٹن کا جوڑا پہنا ہوا تھا ،آج فرید نے واٹر پروف نئے ڈیزائن کی گھڑی پہنی ہوئی تھی اب جو بھی ہو یہ سب میں نے لیکر رہنا ہے ،
عورت بدترین حالات میں بھی ہمیشہ خوش گمان رہتی ہے ،کبھی برا نہیں سوچتی ،ہمیشہ اچھی بات پر فوکس کئے رکھتی ہے ، جبکہ یہ ناہنجار مرد غضب کے بدگمان ہوتے ہیں ذرا ذرا سی بات پر غلط خیال کے وہ گھوڑے دوڑاتے ہیں کہ خدا کی پناہ ، لوگ شیطان سے پناہ مانگتے ہیں شیطان مرد کی بدگمانی کی عادت کی وجہ سے اس سے پناہ مانگتا ہے
ایمانداری سے بتائیں کیا آپ نے زندگی میں کوئی شکی عورت دیکھی ؟
شک عورت کے قریب سے بھی نہیں گزرا ، اور یہ مرد حد درجے کے شکی واقع ہوتے ہیں ، عورت بال سنوار کر اور ذرا سا پرفیوم وغیرہ لگاکر سہیلیوں پڑوسیوں کی طرف کیا نکلے مرد کا دل خدشات سے بھر جاتا ہے اور طرح طرح کے اندازے قائم کرنا شروع کردیتے ہیں ، اور تو اور اگر کبھی عورت بیچاری اپنے بچوں کے مستقبل کے حوالے سے فکر مند ہوکر ذرا گہری سوچ میں کیا ڈوب جائے مرد فورا'' سوچنے لگتے ہیں ضرور ان کی بیوی کا کہیں اور چکر ہے اور یہ اسکے بارے میں سوچ رہی ہے یا پھر اپنے شوہر سے جان چھڑانے کے طور طریقوں پر غور کر رہی ہے ،
عورت گھر کے کام کاج میں دن رات جٹی رہتی ہے تھک جاتی ہے یہاں تک کہ کئی بار تو اپنے پسندیدہ ڈرامے کی قسط بھی نہیں دیکھ پاتی ، اور یہ ظالم مرد جو دن بھر باہر بارہ سولہ گھنٹے ڈیوٹی کے بہانے آزاد فضا میں عیاشیاں کرکے گھر لوٹتے ہیں انہیں اتنی توفیق نہیں ہوتی کہ اپنے لئے فرج سے سالن نکال کر گرم کرلیں ،
عورت نہایت درجہ شکرگزار ہوا کرتی ہے ، خود کے ساتھ کی گئی ایک نیکی کو بھی زندگی بھر یاد رکھتی ہے ،جبکہ ناشکرے مرد ، کسی ایک معمولی سے بات یا تکلیف پر جھٹ سے کہہ دیتے ہیں کہ مجھے تم سے ملا ہی کیا ہے تمھارے ساتھ میں نے غم کے سوا کچھ نہیں دیکھا ،
عورت سمجھدار اور معاملہ فہم ہوتی ہے کبھی جذباتیت کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیتی ،ٹھنڈے دل و دماغ سے فیصلے کرتی ہے ،اور مرد ،اندازہ لگائیں کہ کتنی طلاقیں صرف مرد کے جذباتی پن کی وجہ سے ہوئی ہیں اگر طلاق کا یہ اختیار بوقت نکاح عورت کو دے دیا جائے تو بدترین حالات میں بھی کوئی طلاق واقع نہ ہو ،
عورت سلیقہ مند ہوتی ہے یہ گھر میں ہمیشہ اچھے لباس میں اور صاف ستھری رہتی ہے تاکہ ان کا خاوند ان کی طرف ملتفت رہے جبکہ یہ مرد ذات ہمیشہ پوہڑ پن کی انتہا پر ہوتے ہیں اگر کسی شادی تقریب وغیرہ حتی کے کسی میت والے گھر بھی جانا ہو تو خوب بن سنور کر نکلتے ہیں لیکن اپنے گھر میں ہمیشہ بکھرے بال سری لنکن باولر ملنگا کے مانند رہتے ہیں ، اور تین تین دن بھی کپڑے بدلنے کی کوئی توفیق نہیں ہوتی ،
ظالم مرد کی داستان بہت طویل ہے فلحال پہلی قسط پر مظلوم عورتوں کی '' تعریف '' ہضم کرلوں
No comments:
Post a Comment