Current Affairs, local News, Desi totakye, Desi food Recipes, Urdu Stories, information,Tips and Tricks
Sunday, 31 May 2015
Saturday, 30 May 2015
Axact & Shoiab Shiekh and Bol Television Network
بول چینل کے مالک کی طرح ایک انسان کو نوازشریف نے اربوں پتی سے کنگال کر دیا تھا اب بول چینل کے مالک کی باری ہے
جاوید چوہدری کا کالم پڑھ کر آپ ہل کر رہ جائیں گے
یہ دوسرا واقعہ ہے،اکبر علی بھٹی میری پروفیشنل زندگی کے پہلے انسان تھے جنھیں میری نسل کے صحافیوں نے ایک خبر کی وجہ سے عرش سے فرش پر گرتے دیکھا، آج کے صحافی اکبر علی بھٹی کا نام نہیں جانتے لیکن 1990ء سے 1997ء تک میڈیا میں اکبر علی بھٹی کا طوطی بولتا تھا، وہ ملک کے بڑے میڈیا ٹائیکون تھے، وہ وہاڑی کے رہنے والے تھے، میٹرک پاس تھے، ادویات کا کاروبار کرتے تھے۔
سیاست میں آئے، 1988ء اور1990ء میں وہاڑی سے دو بار ایم این اے منتخب ہوئے،وہ میاں برادران کے قریب تھے، وہ سیاسی جوڑ توڑ کا زمانہ تھا، اکبر علی بھٹی نے اس زمانے کا بھرپور فائدہ اٹھایا، ملک میں اس زمانے میں سرکاری اسپتالوں میں مفت ادویات بھی ملتی تھیں اور ٹیسٹ بھی فری ہوتے تھے، اکبر علی بھٹی نے اسپتالوں میں ای سی جی، ایکسرے مشینیں، لیبارٹری کے آلات اور ادویات سپلائی کرنا شروع کر دیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے خوشحال ترین لوگوں میں شمار ہونے لگے، آپ یہ بھی ذہن میں رکھئے، دولت، طاقت اور شہرت تینوں بہنیں ہیں۔
آپ اگر دولت مند ہیں تو آپ مشہور اور طاقتور بھی ہونا چاہیں گے، آپ اگر مشہور ہیں تو آپ دولت اور طاقت بھی حاصل کرنا چاہیں گے اور آپ اگر طاقتور ہیں تو آپ دولت اور شہرت کے پیچھے بھی بھاگیں گے اور انسان جب ان تین بہنوں کو بیک وقت منکوحہ بنانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی بربادی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، کیوں؟ کیونکہ یہ تینوں بہنیں، بہنیں ہونے کے باوجود ایک دوسرے کی خوفناک دشمن بھی ہیں، یہ ایک گھر میں اکٹھی نہیں رہ سکتیں، شہرت دولت سے الجھتی رہتی ہے۔
طاقت شہرت کی ناک توڑ دیتی ہے اور دولت اکثر اوقات شہرت کے زوال کی وجہ بن جاتی ہے اور اس کشمکش کے آخر میں عموماً وہ شخص ذلیل و خوار ہو جاتا ہے جو تینوں کو ایک گھر میں رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور اکبر علی بھٹی کے ساتھ بھی یہی ہوا، وہ بھی دولت کے بعد طاقت اور شہرت کے پیچھے دوڑ پڑے۔ ملک میں اس وقت صرف دو بڑے اخبار ہوتے تھے، اکبر علی بھٹی بھاری سرمائے کے ساتھ صحافت میں آئے، لاہور میں مرکزی جگہ پر عمارت خریدی، جدید پرنٹنگ پریس لگایا اور ملک بھر کے نامور صحافیوں کو تین تین، چار چار گنا معاوضہ دیا، ملک میں اس اخبار نے تین نئے ٹرینڈ متعارف کرائے، ملک کے دونوں بڑے اور پرانے اخبارات کی مناپلی ٹوٹ گئی، یہ کارکنوں کی تنخواہ میں اضافے اور انھیں ریگولر کرنے پر مجبور ہو گئے، دو، ملک کے تمام بڑے صحافی اس اخبار سے وابستہ تھے۔
یہ پوری آزادی سے لکھتے تھے چنانچہ ملک میں آزاد صحافت کا آغاز ہوا اور تین، روزنامہ پاکستان نے نوجوان صحافیوں کی ایک نئی کھیپ تیار کی، اس سے قبل ملک میں اچھا صحافی بننے کے لیے آپ کا گنجا ہونا، آپ کے سرکا سفید ہونا یا پھر فاقہ مستی کا تیس سالہ تجربہ ہونا ضروری تھا، پاکستان اخبار نے ملک میں پہلی بار سیاہ بالوں والے خوش حال صحافیوں کی کلاس تیار کی لیکن پھر یہ اخبار اپنے خالق اکبر علی بھٹی اور اپنے زوال کی خوفناک مثال بن گیا۔
اکبر علی بھٹی اور روزنامہ پاکستان پر زوال کیسے آیا؟ اس کی وجہ ایک خبر اور اس کی تین لفظی سرخی بنی، 1993ء میں صدر غلام اسحاق خان اور وزیراعظم میاں نواز شریف کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے تو اکبر علی بھٹی صدر کے کیمپ میں شامل ہو گئے، صدر نے میاں نواز شریف کی حکومت برطرف کر دی، یہ برطرفی روزنامہ پاکستان میں ’’بدمعاش حکومت برطرف‘‘ کی سرخی کے ساتھ لیڈ لگ گئی، یہ تین لفظ ’’بدمعاش حکومت برطرف‘‘ اکبر علی بھٹی اور روزنامہ پاکستان دونوں کے زوال کی وجہ بن گئے کیونکہ یہ تینوں لفظ میاں برادران کے دل سے ترازو ہو گئے،اکبر علی بھٹی کی بدقسمتی سے میاں نواز شریف کی حکومت بحال ہو گئی، حکومت کے پہلے ٹارگٹ اکبر علی بھٹی تھے۔
ٹھیکے منسوخ ہو گئے اور ادائیگیوں کی پڑتال کے لیے کمیشن بن گئے اور احتساب بھی شروع ہو گیا،بھٹی صاحب کی دولت ایک رات میں آدھی رہ گئی، اکبر علی بھٹی نے بھاگ کر پاکستان پیپلز پارٹی کے مورچے میں پناہ لے لی، محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت آئی، اکبر علی بھٹی نے پہلے آصف علی زرداری کے صحافی دوست اظہر سہیل کو اخبار کا ایڈیٹر بنایا، وہ انھیں سیاسی بحران سے نہ نکال سکے تو حامد میر کو اخبار کا ایڈیٹر بنا دیا گیا، اکبر علی بھٹی کا خیال تھا محترمہ حامد میر کو بھائی کہتی ہیں چنانچہ یہ ایڈیٹر شپ، نئی گاڑی اور موبائل فون کے بدلے انھیں واپس اس مقام پر لے آئیں گے جہاں سے انھیں ’’بدمعاش حکومت برطرف‘‘ کی سرخی نے اتارا تھا لیکن حامد میر پروفیشنل صحافی ثابت ہوئے، انھوں نے کاروبار میں ان کی کوئی مدد نہ کی چنانچہ بھٹی صاحب کی کشتی ڈوبتی چلی گئی، میاں نواز شریف 1997ء میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آ گئے۔
میاں صاحب کی واپسی اکبر علی بھٹی کے تابوت کا آخری کیل ثابت ہوئی، یہ سڑک پر آ گئے، وہ پانچ سو مربع زمین کے مالک تھے، یہ ساری زمین بک گئی، ان کے پاس 165 ٹریکٹر تھے، یہ ٹریکٹر بھی بک گئے، وہ اربوں روپے کی پراپرٹی کے مالک تھے، یہ پراپرٹی بھی بک گئی اور ان کی ادویات کی کمپنیاں بھی بند ہو گئیں، ٹھیکے منسوخ ہو گئے اور سرکاری ادائیگیاں بھی پھنس گئیں اور پیچھے رہ گیا اخبار تو یہ بھی نیلام ہو گیا یہاں تک کہ وہ پیسے پیسے کو محتاج ہو گئے۔
اکبر علی بھٹی آخر میں کرائے کے مکان میں فوت ہوئے۔آپ ملاحظہ کیجیے، ایک خبر اور تین لفظوں کی یہ سرخی ’’بد معاش حکومت برطرف‘‘ اور اکبر علی بھٹی کی پوری ایمپائر غائب۔ میں آج سمجھتا ہوں وہ اگر غرور نہ کرتے، وہ اگر وزیر بننے کا خبط نہ پالتے اور وہ اگر دولت ، شہرت اور طاقت تینوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش نہ کرتے تو وہ شاید اس عبرت ناک انجام تک نہ پہنچتے لیکن انسان بھی قدرت کی عجیب تخلیق ہے، یہ تاریخ جیسی عظیم نعمت کے ہوتے ہوئے بھی سبق نہیں سیکھتا، یہ تاریخ کی موجودگی کے باوجود قارون سے ہارون تک غلطیاں دہراتا چلا جاتا ہے، شاید اسی لیے اللہ نے زمانے کی قسم کھا کر اعلان فرمایا’’ انسان خسارے میں ہے‘‘۔
میری زندگی کا دوسرا واقعہ ایگزیکٹ اور بول کے چیئرمین شعیب احمد شیخ ہیں، یہ بھی ایک خبر، جی ہاں صرف ایک خبر کا نشانہ بن گئے، شعیب شیخ نے جعلی یونیورسٹیاں بنائیں، ویب سائیٹس پر جعلی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا، دنیا بھر کا سرمایہ سمیٹا اور یہ عین جوانی میں ارب پتی بن گئے، دولت آئی تو یہ بھی شہرت اور طاقت کے خبط میں مبتلا ہو گئے، انھوں نے شہرت کے حصول کے لیے ملک کا سب سے بڑا میڈیا گروپ بنانے کا اعلان کر دیا، بول کا فیس بک پیچ بنایا، ویب سائیٹس بنائیں اور میڈیا کے نامور لوگوں کی بولی لگانا شروع کر دی۔
یہ ملک کے طاقتور ترین لوگوں کو بھی اپنا دوست بنانے لگے، ان کے دوستوں کی فہرست میں ایک ایسے طاقتور شخص بھی شامل ہیں جو ریٹائرمنٹ کے بعد دو خوفناک انکوائریاں بھگت رہے ہیں اور جن کی ریٹائرمنٹ نئے پاکستان کے دھرنے اور شعیب احمد شیخ کے زوال کی بڑی وجہ بنی، یہ اگر ریٹائر نہ ہوتے تو آج صورت حال یکسر مختلف ہوتی، بہر حال قصہ مختصر شعیب شیخ چینل لانچ کرنے سے قبل غرور کی اس حد کو چھونے لگے جس پر اکبر علی بھٹی چار سال کی کامیاب صحافت کے بعد پہنچے ، یہ صحافتی اداروں، ان کی ٹیم کا حصہ نہ بننے والے اینکرز اور سرکاری اداروں کو للکارنے لگے، آپ انٹرنیٹ پر ان کی تقریریں سنیں، آپ کو ان کے لہجے میں غرور کی بو آئے گی۔
یہ غرور بالآخر ان کے زوال کی وجہ بن گیا، پاکستان سے ساڑھے گیارہ ہزار کلومیٹر دور نیویارک میں ایک صحافی نے ایک رپورٹ بنائی اور اس رپورٹ پر (Fake Diplomas, Real Cash: Pakistani Company Axact Reaps Millions)نو لفظوں کی سرخی لگائی اور شعیب شیخ کی پوری ایمپائر اپنے ہی قدموں پر گر گئی، یہ دو دن میں عرش سے فرش پر آگئے، میں نے کل رات جب انھیں گرفتار ہوتے دیکھا تو میرے منہ سے فوراً استغفار نکلا اور میں نے اللہ سے اپنے تمام کردہ اور نا کردہ گناہوں کی معافی مانگی، یہ شخص کل تک ملک کا مضبوط اور مشہور شخص تھا، اینکرز کی مضبوط فوج، ملک کے با اثر ترین لوگوں کی فرینڈ شپ، وکلاء کے طویل اسکواڈ اور ساٹھ ستر ارب روپے کا مالک تھا لیکن صرف ایک اخباری رپورٹ اسے فٹ پاتھ پر لے آئی، یہ گھر کا رہا اور نہ ہی گھاٹ کا، اسے کوئی زوال سے نہ بچا سکا، نہ اینکرز،نہ سرکاری تعلقات اور نہ ہی عقل، یہ اپنے ہی مزار کا بجھتا ہوا چراغ بن کر رہ گیا۔
میری ملک کے تمام، دولت مندوں، شہرت پسندوں اور طاقتوروں سے درخواست ہے آپ شعیب شیخ کی تصویر فریم کروائیں اور اپنے کمرے کی دیوار پر لگا لیں، آپ روز یہ تصویر دیکھیں اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں کیونکہ صرف وہی ہے جو ہمارے عیبوں پر پردے ڈالتا ہے، جو ہمیں عزت دیتا ہے، جو ہم پر رحم کرتا ہے اور جو ہم پر کرم فرماتا ہے،دنیا میں شعیب شیخ ایک خبر کی مار ثابت ہوا تو کیا کوئی معمولی خبر یا تین لفظوں کی کوئی سرخی آپ کو نہیں ڈس سکتی، کیا آپ چند لفظوں کا نشانہ نہیں بن سکتے، آئیے اپنے اللہ سے معافی مانگیں۔
جاوید چوہدری کا کالم پڑھ کر آپ ہل کر رہ جائیں گے
یہ دوسرا واقعہ ہے،اکبر علی بھٹی میری پروفیشنل زندگی کے پہلے انسان تھے جنھیں میری نسل کے صحافیوں نے ایک خبر کی وجہ سے عرش سے فرش پر گرتے دیکھا، آج کے صحافی اکبر علی بھٹی کا نام نہیں جانتے لیکن 1990ء سے 1997ء تک میڈیا میں اکبر علی بھٹی کا طوطی بولتا تھا، وہ ملک کے بڑے میڈیا ٹائیکون تھے، وہ وہاڑی کے رہنے والے تھے، میٹرک پاس تھے، ادویات کا کاروبار کرتے تھے۔
سیاست میں آئے، 1988ء اور1990ء میں وہاڑی سے دو بار ایم این اے منتخب ہوئے،وہ میاں برادران کے قریب تھے، وہ سیاسی جوڑ توڑ کا زمانہ تھا، اکبر علی بھٹی نے اس زمانے کا بھرپور فائدہ اٹھایا، ملک میں اس زمانے میں سرکاری اسپتالوں میں مفت ادویات بھی ملتی تھیں اور ٹیسٹ بھی فری ہوتے تھے، اکبر علی بھٹی نے اسپتالوں میں ای سی جی، ایکسرے مشینیں، لیبارٹری کے آلات اور ادویات سپلائی کرنا شروع کر دیں اور دیکھتے ہی دیکھتے ملک کے خوشحال ترین لوگوں میں شمار ہونے لگے، آپ یہ بھی ذہن میں رکھئے، دولت، طاقت اور شہرت تینوں بہنیں ہیں۔
آپ اگر دولت مند ہیں تو آپ مشہور اور طاقتور بھی ہونا چاہیں گے، آپ اگر مشہور ہیں تو آپ دولت اور طاقت بھی حاصل کرنا چاہیں گے اور آپ اگر طاقتور ہیں تو آپ دولت اور شہرت کے پیچھے بھی بھاگیں گے اور انسان جب ان تین بہنوں کو بیک وقت منکوحہ بنانے کی کوشش کرتا ہے تو اس کی بربادی کے امکانات بڑھ جاتے ہیں، کیوں؟ کیونکہ یہ تینوں بہنیں، بہنیں ہونے کے باوجود ایک دوسرے کی خوفناک دشمن بھی ہیں، یہ ایک گھر میں اکٹھی نہیں رہ سکتیں، شہرت دولت سے الجھتی رہتی ہے۔
طاقت شہرت کی ناک توڑ دیتی ہے اور دولت اکثر اوقات شہرت کے زوال کی وجہ بن جاتی ہے اور اس کشمکش کے آخر میں عموماً وہ شخص ذلیل و خوار ہو جاتا ہے جو تینوں کو ایک گھر میں رکھنے کی کوشش کرتا ہے اور اکبر علی بھٹی کے ساتھ بھی یہی ہوا، وہ بھی دولت کے بعد طاقت اور شہرت کے پیچھے دوڑ پڑے۔ ملک میں اس وقت صرف دو بڑے اخبار ہوتے تھے، اکبر علی بھٹی بھاری سرمائے کے ساتھ صحافت میں آئے، لاہور میں مرکزی جگہ پر عمارت خریدی، جدید پرنٹنگ پریس لگایا اور ملک بھر کے نامور صحافیوں کو تین تین، چار چار گنا معاوضہ دیا، ملک میں اس اخبار نے تین نئے ٹرینڈ متعارف کرائے، ملک کے دونوں بڑے اور پرانے اخبارات کی مناپلی ٹوٹ گئی، یہ کارکنوں کی تنخواہ میں اضافے اور انھیں ریگولر کرنے پر مجبور ہو گئے، دو، ملک کے تمام بڑے صحافی اس اخبار سے وابستہ تھے۔
یہ پوری آزادی سے لکھتے تھے چنانچہ ملک میں آزاد صحافت کا آغاز ہوا اور تین، روزنامہ پاکستان نے نوجوان صحافیوں کی ایک نئی کھیپ تیار کی، اس سے قبل ملک میں اچھا صحافی بننے کے لیے آپ کا گنجا ہونا، آپ کے سرکا سفید ہونا یا پھر فاقہ مستی کا تیس سالہ تجربہ ہونا ضروری تھا، پاکستان اخبار نے ملک میں پہلی بار سیاہ بالوں والے خوش حال صحافیوں کی کلاس تیار کی لیکن پھر یہ اخبار اپنے خالق اکبر علی بھٹی اور اپنے زوال کی خوفناک مثال بن گیا۔
اکبر علی بھٹی اور روزنامہ پاکستان پر زوال کیسے آیا؟ اس کی وجہ ایک خبر اور اس کی تین لفظی سرخی بنی، 1993ء میں صدر غلام اسحاق خان اور وزیراعظم میاں نواز شریف کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے تو اکبر علی بھٹی صدر کے کیمپ میں شامل ہو گئے، صدر نے میاں نواز شریف کی حکومت برطرف کر دی، یہ برطرفی روزنامہ پاکستان میں ’’بدمعاش حکومت برطرف‘‘ کی سرخی کے ساتھ لیڈ لگ گئی، یہ تین لفظ ’’بدمعاش حکومت برطرف‘‘ اکبر علی بھٹی اور روزنامہ پاکستان دونوں کے زوال کی وجہ بن گئے کیونکہ یہ تینوں لفظ میاں برادران کے دل سے ترازو ہو گئے،اکبر علی بھٹی کی بدقسمتی سے میاں نواز شریف کی حکومت بحال ہو گئی، حکومت کے پہلے ٹارگٹ اکبر علی بھٹی تھے۔
ٹھیکے منسوخ ہو گئے اور ادائیگیوں کی پڑتال کے لیے کمیشن بن گئے اور احتساب بھی شروع ہو گیا،بھٹی صاحب کی دولت ایک رات میں آدھی رہ گئی، اکبر علی بھٹی نے بھاگ کر پاکستان پیپلز پارٹی کے مورچے میں پناہ لے لی، محترمہ بے نظیر بھٹو کی حکومت آئی، اکبر علی بھٹی نے پہلے آصف علی زرداری کے صحافی دوست اظہر سہیل کو اخبار کا ایڈیٹر بنایا، وہ انھیں سیاسی بحران سے نہ نکال سکے تو حامد میر کو اخبار کا ایڈیٹر بنا دیا گیا، اکبر علی بھٹی کا خیال تھا محترمہ حامد میر کو بھائی کہتی ہیں چنانچہ یہ ایڈیٹر شپ، نئی گاڑی اور موبائل فون کے بدلے انھیں واپس اس مقام پر لے آئیں گے جہاں سے انھیں ’’بدمعاش حکومت برطرف‘‘ کی سرخی نے اتارا تھا لیکن حامد میر پروفیشنل صحافی ثابت ہوئے، انھوں نے کاروبار میں ان کی کوئی مدد نہ کی چنانچہ بھٹی صاحب کی کشتی ڈوبتی چلی گئی، میاں نواز شریف 1997ء میں دو تہائی اکثریت کے ساتھ اقتدار میں آ گئے۔
میاں صاحب کی واپسی اکبر علی بھٹی کے تابوت کا آخری کیل ثابت ہوئی، یہ سڑک پر آ گئے، وہ پانچ سو مربع زمین کے مالک تھے، یہ ساری زمین بک گئی، ان کے پاس 165 ٹریکٹر تھے، یہ ٹریکٹر بھی بک گئے، وہ اربوں روپے کی پراپرٹی کے مالک تھے، یہ پراپرٹی بھی بک گئی اور ان کی ادویات کی کمپنیاں بھی بند ہو گئیں، ٹھیکے منسوخ ہو گئے اور سرکاری ادائیگیاں بھی پھنس گئیں اور پیچھے رہ گیا اخبار تو یہ بھی نیلام ہو گیا یہاں تک کہ وہ پیسے پیسے کو محتاج ہو گئے۔
اکبر علی بھٹی آخر میں کرائے کے مکان میں فوت ہوئے۔آپ ملاحظہ کیجیے، ایک خبر اور تین لفظوں کی یہ سرخی ’’بد معاش حکومت برطرف‘‘ اور اکبر علی بھٹی کی پوری ایمپائر غائب۔ میں آج سمجھتا ہوں وہ اگر غرور نہ کرتے، وہ اگر وزیر بننے کا خبط نہ پالتے اور وہ اگر دولت ، شہرت اور طاقت تینوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش نہ کرتے تو وہ شاید اس عبرت ناک انجام تک نہ پہنچتے لیکن انسان بھی قدرت کی عجیب تخلیق ہے، یہ تاریخ جیسی عظیم نعمت کے ہوتے ہوئے بھی سبق نہیں سیکھتا، یہ تاریخ کی موجودگی کے باوجود قارون سے ہارون تک غلطیاں دہراتا چلا جاتا ہے، شاید اسی لیے اللہ نے زمانے کی قسم کھا کر اعلان فرمایا’’ انسان خسارے میں ہے‘‘۔
میری زندگی کا دوسرا واقعہ ایگزیکٹ اور بول کے چیئرمین شعیب احمد شیخ ہیں، یہ بھی ایک خبر، جی ہاں صرف ایک خبر کا نشانہ بن گئے، شعیب شیخ نے جعلی یونیورسٹیاں بنائیں، ویب سائیٹس پر جعلی تعلیم کا سلسلہ شروع کیا، دنیا بھر کا سرمایہ سمیٹا اور یہ عین جوانی میں ارب پتی بن گئے، دولت آئی تو یہ بھی شہرت اور طاقت کے خبط میں مبتلا ہو گئے، انھوں نے شہرت کے حصول کے لیے ملک کا سب سے بڑا میڈیا گروپ بنانے کا اعلان کر دیا، بول کا فیس بک پیچ بنایا، ویب سائیٹس بنائیں اور میڈیا کے نامور لوگوں کی بولی لگانا شروع کر دی۔
یہ ملک کے طاقتور ترین لوگوں کو بھی اپنا دوست بنانے لگے، ان کے دوستوں کی فہرست میں ایک ایسے طاقتور شخص بھی شامل ہیں جو ریٹائرمنٹ کے بعد دو خوفناک انکوائریاں بھگت رہے ہیں اور جن کی ریٹائرمنٹ نئے پاکستان کے دھرنے اور شعیب احمد شیخ کے زوال کی بڑی وجہ بنی، یہ اگر ریٹائر نہ ہوتے تو آج صورت حال یکسر مختلف ہوتی، بہر حال قصہ مختصر شعیب شیخ چینل لانچ کرنے سے قبل غرور کی اس حد کو چھونے لگے جس پر اکبر علی بھٹی چار سال کی کامیاب صحافت کے بعد پہنچے ، یہ صحافتی اداروں، ان کی ٹیم کا حصہ نہ بننے والے اینکرز اور سرکاری اداروں کو للکارنے لگے، آپ انٹرنیٹ پر ان کی تقریریں سنیں، آپ کو ان کے لہجے میں غرور کی بو آئے گی۔
یہ غرور بالآخر ان کے زوال کی وجہ بن گیا، پاکستان سے ساڑھے گیارہ ہزار کلومیٹر دور نیویارک میں ایک صحافی نے ایک رپورٹ بنائی اور اس رپورٹ پر (Fake Diplomas, Real Cash: Pakistani Company Axact Reaps Millions)نو لفظوں کی سرخی لگائی اور شعیب شیخ کی پوری ایمپائر اپنے ہی قدموں پر گر گئی، یہ دو دن میں عرش سے فرش پر آگئے، میں نے کل رات جب انھیں گرفتار ہوتے دیکھا تو میرے منہ سے فوراً استغفار نکلا اور میں نے اللہ سے اپنے تمام کردہ اور نا کردہ گناہوں کی معافی مانگی، یہ شخص کل تک ملک کا مضبوط اور مشہور شخص تھا، اینکرز کی مضبوط فوج، ملک کے با اثر ترین لوگوں کی فرینڈ شپ، وکلاء کے طویل اسکواڈ اور ساٹھ ستر ارب روپے کا مالک تھا لیکن صرف ایک اخباری رپورٹ اسے فٹ پاتھ پر لے آئی، یہ گھر کا رہا اور نہ ہی گھاٹ کا، اسے کوئی زوال سے نہ بچا سکا، نہ اینکرز،نہ سرکاری تعلقات اور نہ ہی عقل، یہ اپنے ہی مزار کا بجھتا ہوا چراغ بن کر رہ گیا۔
میری ملک کے تمام، دولت مندوں، شہرت پسندوں اور طاقتوروں سے درخواست ہے آپ شعیب شیخ کی تصویر فریم کروائیں اور اپنے کمرے کی دیوار پر لگا لیں، آپ روز یہ تصویر دیکھیں اور اللہ تعالیٰ سے معافی مانگیں کیونکہ صرف وہی ہے جو ہمارے عیبوں پر پردے ڈالتا ہے، جو ہمیں عزت دیتا ہے، جو ہم پر رحم کرتا ہے اور جو ہم پر کرم فرماتا ہے،دنیا میں شعیب شیخ ایک خبر کی مار ثابت ہوا تو کیا کوئی معمولی خبر یا تین لفظوں کی کوئی سرخی آپ کو نہیں ڈس سکتی، کیا آپ چند لفظوں کا نشانہ نہیں بن سکتے، آئیے اپنے اللہ سے معافی مانگیں۔
Wednesday, 27 May 2015
شعیب شیخ اور ماڈل ایان علی
کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیاء ہوتی ہے۔
مجھے نہیں پتہ کہ شعیب شیخ دونمبر کام کررہا تھا کہ نہیں مگر میں ایک بات جانتاہوں کہ وہ باہر سے پاکستان میں روپیہ لا رہا تھا، جس سے ہمارا ملک معاشی ترقی کررہا تھا، پاکستان کے آئی ٹی انڈسٹری 65پرسنٹ حصہ تھا، لیکن انڈیا کے حمائیتی یہ نہیں چاہتیے ہیں کہ یہ روپیہ پاکستان میں آئے،
اب اگر یہ ادارہ بند ہوگیا تو 65 فیصد جو پاکستان میں آتا تھا وہ انڈیا چلاجائے گا۔۔ شرم کرو انڈیا کے ٹٹو
یوم تکبیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ اکبر
یوم تکبیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ اکبر یوم تکبیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ اکبر یوم تکبیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ اکبر یوم تکبیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ اکبر
یوم تکبیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ اکبر
یوم تکبیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ اکبر
یوم تکبیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ اکبر
یوم تکبیر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اللہ اکبر
Tuesday, 26 May 2015
Sunday, 24 May 2015
Saturday, 23 May 2015
Friday, 22 May 2015
Thursday, 21 May 2015
Wednesday, 20 May 2015
کسی کو پرکھنے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہ کریں
ایک آدمی کے چار بیٹے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ اُس کے بیٹے یہ سبق سیکھ لیں کہ کسی کو پرکھنے میں جلد بازی کا مظاہرہ نہ کریں۔ لہٰذا اس بات کو سمجھانے کیلئے اُس نے اپنے بیٹوں کو ایک سفر پر روانہ کرنے کا فیصلہ کیا اور دور درازعلاقے میں ناشپاتی کا ایک درخت دیکھنے کیلئے بھیجا۔
ایک وقت میں ایک بیٹے کو سفر پر بھیجا کہ جاؤ اور اُس درخت کو دیکھ کر آؤ۔ باری باری سب کا سفر شروع ہوا۔ پہلا بیٹا سردی کے موسم میں گیا، دوسرا بہار میں، تیسرا گرمی کے موسم میں اور سب سے چھوٹا بیٹا خزاں کے موسم میں گیا۔
جب سب بیٹے اپنا اپنا سفر ختم کر کے واپس لوٹ آئے تو اُس آدمی نے اپنے چاروں بیٹوں کو ایک ساتھ طلب کیا اور سب سے اُن کے سفر کی الگ الگ تفصیل کے بارے میں پوچھا۔
پہلا بیٹا جو جاڑے کے موسم میں اُس درخت کو دیکھنے گیا تھا، نے کہا کہ وہ درخت بہت بدصورت، جُھکا ہوا اورٹیڑھا سا تھا۔
دوسرے بیٹے نے کہا نہیں وہ درخت تو بہت ہرا بھرا تھا۔ہرے ہرے پتوں سے بھرا ہوا۔
تیسرے بیٹے نے اُن دونوں سے اختلاف کیا کہ وہ درخت تو پھولوں سے بھرا ہوا تھا اور اُس کی مہک دور دور تک آ رہی تھی اوریہ کہ اُس سے حسین منظر اُس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
سب سے چھوٹے بیٹے نے اپنے سب بڑے بھائیوں سے اختلاف ظاہر کیا کہ وہ ناشپاتی کا درخت تو پھل سے لدا ہوا تھا اور اُس پھل کے بوجھ سے درخت زمین سے لگازندگی سے بھر پورنظر آرہا تھا۔
یہ سب سُننے کے بعد اُس آدمی نے مسکرا کر اپنے چاروں بیٹوں کی جانب دیکھا اور کہا :’’تم چاروں میں سے کوئی بھی غلط نہیں کہہ رہا۔ سب اپنی اپنی جگہ درست ہیں ‘‘۔
بیٹے باپ کا جواب سُن کر بہت حیران ہوئے کہ ایسا کس طرح ممکن ہے۔ باپ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہاـ: ’’تم کسی بھی د رخت کو یا شخص کو صرف ایک موسم یا حالت میں دیکھ کر کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر سکتے -- کسی بھی فرد کو جانچنے کیلئے تھوڑا وقت ضروری ہوتا ہے۔ انسان کبھی کسی کیفیت میں ہوتا ہے کبھی کسی کیفیت میں۔اگر درخت کو تم نے جاڑے کے موسم میں بے رونق دیکھا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اُس پر کبھی پھل نہیں آئے گا۔ اسی طرح اگر کسی شخص کو تم لوگ غصے کی حالت میں دیکھ رہے ہو تو اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ وہ بُرا ہی ہو گا۔ کبھی بھی جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہ کرو جب تک اچھی طرح کسی کو جانچ نہ لو
ایک وقت میں ایک بیٹے کو سفر پر بھیجا کہ جاؤ اور اُس درخت کو دیکھ کر آؤ۔ باری باری سب کا سفر شروع ہوا۔ پہلا بیٹا سردی کے موسم میں گیا، دوسرا بہار میں، تیسرا گرمی کے موسم میں اور سب سے چھوٹا بیٹا خزاں کے موسم میں گیا۔
جب سب بیٹے اپنا اپنا سفر ختم کر کے واپس لوٹ آئے تو اُس آدمی نے اپنے چاروں بیٹوں کو ایک ساتھ طلب کیا اور سب سے اُن کے سفر کی الگ الگ تفصیل کے بارے میں پوچھا۔
پہلا بیٹا جو جاڑے کے موسم میں اُس درخت کو دیکھنے گیا تھا، نے کہا کہ وہ درخت بہت بدصورت، جُھکا ہوا اورٹیڑھا سا تھا۔
دوسرے بیٹے نے کہا نہیں وہ درخت تو بہت ہرا بھرا تھا۔ہرے ہرے پتوں سے بھرا ہوا۔
تیسرے بیٹے نے اُن دونوں سے اختلاف کیا کہ وہ درخت تو پھولوں سے بھرا ہوا تھا اور اُس کی مہک دور دور تک آ رہی تھی اوریہ کہ اُس سے حسین منظر اُس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔
سب سے چھوٹے بیٹے نے اپنے سب بڑے بھائیوں سے اختلاف ظاہر کیا کہ وہ ناشپاتی کا درخت تو پھل سے لدا ہوا تھا اور اُس پھل کے بوجھ سے درخت زمین سے لگازندگی سے بھر پورنظر آرہا تھا۔
یہ سب سُننے کے بعد اُس آدمی نے مسکرا کر اپنے چاروں بیٹوں کی جانب دیکھا اور کہا :’’تم چاروں میں سے کوئی بھی غلط نہیں کہہ رہا۔ سب اپنی اپنی جگہ درست ہیں ‘‘۔
بیٹے باپ کا جواب سُن کر بہت حیران ہوئے کہ ایسا کس طرح ممکن ہے۔ باپ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہاـ: ’’تم کسی بھی د رخت کو یا شخص کو صرف ایک موسم یا حالت میں دیکھ کر کوئی حتمی فیصلہ نہیں کر سکتے -- کسی بھی فرد کو جانچنے کیلئے تھوڑا وقت ضروری ہوتا ہے۔ انسان کبھی کسی کیفیت میں ہوتا ہے کبھی کسی کیفیت میں۔اگر درخت کو تم نے جاڑے کے موسم میں بے رونق دیکھا ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ اُس پر کبھی پھل نہیں آئے گا۔ اسی طرح اگر کسی شخص کو تم لوگ غصے کی حالت میں دیکھ رہے ہو تو اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ وہ بُرا ہی ہو گا۔ کبھی بھی جلد بازی میں کوئی فیصلہ نہ کرو جب تک اچھی طرح کسی کو جانچ نہ لو
اپنی سوچ کو بدلیں
کسی ملک میں یہ دستور تھا کہ ہر پانچ سال بعد وہ اپنا بادشاہ تبدیل کر لیتے تھے۔ اور بادشاہ کی تبدیلی کا طریقہ کار یہ ہوتا کہ مقررہ دن جو بھی شخص علی الصبح شہر میں سب سے پہلے داخل ہوتا وہ بادشاہ قرار پاتا۔
سابقہ بادشاہ کو وہ لوگ ایک ایسی اندھیر کوٹھری میں ڈال آتے جو ہر طرح کی آسائش اور سہولت سے خالی ہوتی اور وہاں پر بادشاہ اگلی ساری زندگی ایک بھکاری کی طرح گزارتا اور پھر اُسی کسمپرسی کی حالت میں دم توڑ جاتا۔
ایک بار ایسے ہی بادشاہ کے منتخب کرنے کا دن آن پہنچا تو اُس دِن جو شخص علی الصبح شہر کے سب سے بڑے داخلی دروازے کی طرف بڑھا، وہ نہایت عقلمند اور زیرک انسان تھا۔ جیسے ہی وہ شہر میں داخل ہوا، وزراء اور مشیروں نے بڑی گرم جوشی سے اُس کا استقبال کیا۔ اُسے شاہی سواری میں بیٹھا کر ایک جلوس کی شکل میں محل تک لیجایا گیا اور بڑی عزت اور مرتبے کے ساتھ اُسے شاہی لباس پہنا کر تخت پر بیٹھایا گیا۔
پھر اُسے وہ دستور پڑھ کے سنایا گیا کہ، "کیسے پانچ سال کے دوران تو اُس (بادشاہ) کی ہر جائز اور ناجائز خواہش کو پورا کیا جائے گا، لیکن اُس کے بعد اُسے اندھیر کوٹھری میں بالکل بے یار و مددگار چھوڑ دیا جائے گا۔"
نیا بادشاہ یہ شاہی فرمان سن کر کچھ سوچ میں پڑ گیا پھر اُس نے سب سے پہلا شاہی فرمان جاری کرتے ہوئے کہا "میں حکم دیتا ہوں کہ اُس اندھیر کوٹھری کو ایک خوبصورت محل کی شکل دی جائے اور وہاں پر زندگی کی ہر وہ سہولت مہیا کی جائے جو ایک عام انسان کے لیے ضروری ہے۔۔۔!"
تمام وزیر اور مشیر بادشاہ کے اِس پہلے اور انوکھے فرمان سے حیران رہ گئے۔ کیوں کہ اب تک جتنے بھی بادشاہ آئے تھے، کسی نے بھی ایسا حکم صادر نہیں کیا تھا۔ لیکن پھر بھی یہ شاہی حکم تھا تو شاہی معمار کام میں جُت گئے اور یوں دھیرے دھیرے پانچ سال کا عرصہ بھی اپنے اختتام کو پہنچ گیا اور وہ اندھیر کوٹھڑی بھی ایک عالی شان محل کی شکل اختیار کر گئی۔
تبدیلی کا دِن آیا تو بادشاہ نے خود اعلان کیا کہ "آؤ اور مجھے اُس جگہ چھوڑ آؤ جہاں تم مجھ سے پہلے بادشاہوں کو بے یار و مددگار چھوڑ کے آتے تھے۔۔!"
تبھی ایک وزیر آگے بڑھا اور بولا، "بادشاہ سلامت! آپ سے پہلے جتنے بھی بادشاہ آئے وہ اپنی بیوقوفی اور نااہلی کی بدولت اپنے دردناک انجام سے بے خبر، حکومت کے نشے میں مست رہ کر وقت گزارتے اور پھر اگلی پوری زندگی اندھیر کوٹھڑی میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کے دم توڑ جاتے،لیکن آپ نے تو نہایت دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے ہی دن سے اپنے انجام کی فکر کی اور اُس اندھیر کوٹھری کو ہر قسم کے خطرات سے پاک کر کے اپنے رہنے لائق بنا لیا، ہمیں آپ جیسے سمجھدار بادشاہ کی ہی ضرورت تھی۔ اِس لیے ہم سب نے فیصلہ کیا ہے کہ آپ چاہے اِس محل میں رہیں یا اُس نئے محل میں قیام کریں، آپ کی مرضی ہے۔ لیکن ہم آئندہ کے لیے بھی آپ ہی کو اپنا بادشاہ منتخب کرتے ہیں۔۔۔۔"
اگر ہم اِس کہانی کو بغور پڑھیں تو اِس میں ہمیں ایک انسانی زندگی کا عکس نظر آئے گا، کہ کیسے ایک انسان نومولود بچے کی شکل میں اِس دنیا میں آتا ہے تو اُس کا خوشیوں اور مسرتوں سے بھرپور استقبال کیا جاتا ہے۔ اور پھر وہ بچہ بڑا ہو کر یہاں کی رنگینیوں، آسائشوں اور خیرہ انگیزیوں میں کھو جاتا ہے، یہاں تک کہ موت کے مقررہ وقت پر لوگ اُسے کاندھوں پر اُٹھا کے قبر کی اندھیر کوٹھری میں ڈال آتے ہیں۔ لیکن ......!
"اللّٰہ کے نیک متقی اور پرہیزگار بندے اُس سمجھدار بادشاہ کی طرح ابھی سے اپنے انجام کی فکر کرتے ہوئے اُس اندھیر کوٹھری (قبر) کو ایک شاہی محل بنانے کی فکر میں جُت جاتے ہیں، اور دراصل یہی لوگ کامیاب ہیں اور یہی لوگ جنتی ہیں۔"
سابقہ بادشاہ کو وہ لوگ ایک ایسی اندھیر کوٹھری میں ڈال آتے جو ہر طرح کی آسائش اور سہولت سے خالی ہوتی اور وہاں پر بادشاہ اگلی ساری زندگی ایک بھکاری کی طرح گزارتا اور پھر اُسی کسمپرسی کی حالت میں دم توڑ جاتا۔
ایک بار ایسے ہی بادشاہ کے منتخب کرنے کا دن آن پہنچا تو اُس دِن جو شخص علی الصبح شہر کے سب سے بڑے داخلی دروازے کی طرف بڑھا، وہ نہایت عقلمند اور زیرک انسان تھا۔ جیسے ہی وہ شہر میں داخل ہوا، وزراء اور مشیروں نے بڑی گرم جوشی سے اُس کا استقبال کیا۔ اُسے شاہی سواری میں بیٹھا کر ایک جلوس کی شکل میں محل تک لیجایا گیا اور بڑی عزت اور مرتبے کے ساتھ اُسے شاہی لباس پہنا کر تخت پر بیٹھایا گیا۔
پھر اُسے وہ دستور پڑھ کے سنایا گیا کہ، "کیسے پانچ سال کے دوران تو اُس (بادشاہ) کی ہر جائز اور ناجائز خواہش کو پورا کیا جائے گا، لیکن اُس کے بعد اُسے اندھیر کوٹھری میں بالکل بے یار و مددگار چھوڑ دیا جائے گا۔"
نیا بادشاہ یہ شاہی فرمان سن کر کچھ سوچ میں پڑ گیا پھر اُس نے سب سے پہلا شاہی فرمان جاری کرتے ہوئے کہا "میں حکم دیتا ہوں کہ اُس اندھیر کوٹھری کو ایک خوبصورت محل کی شکل دی جائے اور وہاں پر زندگی کی ہر وہ سہولت مہیا کی جائے جو ایک عام انسان کے لیے ضروری ہے۔۔۔!"
تمام وزیر اور مشیر بادشاہ کے اِس پہلے اور انوکھے فرمان سے حیران رہ گئے۔ کیوں کہ اب تک جتنے بھی بادشاہ آئے تھے، کسی نے بھی ایسا حکم صادر نہیں کیا تھا۔ لیکن پھر بھی یہ شاہی حکم تھا تو شاہی معمار کام میں جُت گئے اور یوں دھیرے دھیرے پانچ سال کا عرصہ بھی اپنے اختتام کو پہنچ گیا اور وہ اندھیر کوٹھڑی بھی ایک عالی شان محل کی شکل اختیار کر گئی۔
تبدیلی کا دِن آیا تو بادشاہ نے خود اعلان کیا کہ "آؤ اور مجھے اُس جگہ چھوڑ آؤ جہاں تم مجھ سے پہلے بادشاہوں کو بے یار و مددگار چھوڑ کے آتے تھے۔۔!"
تبھی ایک وزیر آگے بڑھا اور بولا، "بادشاہ سلامت! آپ سے پہلے جتنے بھی بادشاہ آئے وہ اپنی بیوقوفی اور نااہلی کی بدولت اپنے دردناک انجام سے بے خبر، حکومت کے نشے میں مست رہ کر وقت گزارتے اور پھر اگلی پوری زندگی اندھیر کوٹھڑی میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کے دم توڑ جاتے،لیکن آپ نے تو نہایت دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پہلے ہی دن سے اپنے انجام کی فکر کی اور اُس اندھیر کوٹھری کو ہر قسم کے خطرات سے پاک کر کے اپنے رہنے لائق بنا لیا، ہمیں آپ جیسے سمجھدار بادشاہ کی ہی ضرورت تھی۔ اِس لیے ہم سب نے فیصلہ کیا ہے کہ آپ چاہے اِس محل میں رہیں یا اُس نئے محل میں قیام کریں، آپ کی مرضی ہے۔ لیکن ہم آئندہ کے لیے بھی آپ ہی کو اپنا بادشاہ منتخب کرتے ہیں۔۔۔۔"
اگر ہم اِس کہانی کو بغور پڑھیں تو اِس میں ہمیں ایک انسانی زندگی کا عکس نظر آئے گا، کہ کیسے ایک انسان نومولود بچے کی شکل میں اِس دنیا میں آتا ہے تو اُس کا خوشیوں اور مسرتوں سے بھرپور استقبال کیا جاتا ہے۔ اور پھر وہ بچہ بڑا ہو کر یہاں کی رنگینیوں، آسائشوں اور خیرہ انگیزیوں میں کھو جاتا ہے، یہاں تک کہ موت کے مقررہ وقت پر لوگ اُسے کاندھوں پر اُٹھا کے قبر کی اندھیر کوٹھری میں ڈال آتے ہیں۔ لیکن ......!
"اللّٰہ کے نیک متقی اور پرہیزگار بندے اُس سمجھدار بادشاہ کی طرح ابھی سے اپنے انجام کی فکر کرتے ہوئے اُس اندھیر کوٹھری (قبر) کو ایک شاہی محل بنانے کی فکر میں جُت جاتے ہیں، اور دراصل یہی لوگ کامیاب ہیں اور یہی لوگ جنتی ہیں۔"
Tuesday, 19 May 2015
Monday, 18 May 2015
Sunday, 17 May 2015
Subscribe to:
Posts (Atom)
ناڑہ پولیس کی نااہلی سجیکوٹ آبشار پر آنے والے سیاحوں کو ڈاکوناکہ لگا کرلوٹنے لگے
ناڑہ پولیس کی نااہلی سجیکوٹ آبشار پر آنے والے سیاحوں کو ڈاکوناکہ لگا کرلوٹنے لگے ایک ہفتہ میں سیاحوں کو لوٹنے کا دوسرا واقعہ رونما ہوا...
-
Protection of Animals Rights in Islam Islamic Shariah has well taken care of animal rights the same way as it has protected human righ...