Current Affairs, local News, Desi totakye, Desi food Recipes, Urdu Stories, information,Tips and Tricks
Sunday, 31 July 2016
Friday, 29 July 2016
متحدہ عرب امارات میں وی پی این یا پراکسی سرور استعمال کرتے ہوئے پکڑے جانے والے کو جرمانہ ادا کرنا ہو گاNew Law for VPN in UAE
متحدہ عرب امارات کے سربراہ شیخ خلیفہ بن زید النہیان نے سائبر کرائمز کی روک تھام کے لیے نئے قوانین کی منظوری دے دی ہے۔ جس کے تحت متحدہ عرب امارات میں وی پی این یا پراکسی سرور استعمال کرتے ہوئے پکڑے جانے والے کو 136000 سے لے کر 545000 امریکی ڈالر جرمانہ ادا کرنا ہو گا۔ پاکستانی کرنسی میں یہ رقم کروڑوں روپے کے برابر بنتی ہے۔ وی پی این یعنی ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک کے ذریعے انٹرنیٹ پر ہونے والی سرگرمیوں تک پہنچنا حکام کے لیے تقریباً ناممکن ہو جاتا ہے، یو اے ای میں بین ویب سائٹس دیکھنے کے لیے لوگ وی پی این کا استعمال کرتے ہیں۔ یو اے ای میں کئی میسجنگ ایپس جیسے کہ گوگل ہینگ آؤٹس، وٹس ایپ، وائبر، اسکائپ اور فیس بک مسینجر وغیرہ کا کالنگ فیچر بھی بلاک ہے، جس تک رسائی حاصل کرنے کے لیے لوگ پراکسی سرورز کا سہارا لیتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں صرف دو مواصلاتی کمپنیوں اتصلات اور ڈو کے پاس کمرشل وائس اوور آئی پی کے لائسنس موجود ہیں۔ ان کے علاوہ کسی دوسری سروس کے ذریعے کال کرنے پر مکمل پابندی عائد ہے۔ اگرچہ متحدہ عرب امارات کے اس فیصلے کو اکثر تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن حکام کا کہنا ہے کہ ان تمام ایپلی کیشنز کو ریاستی سلامتی کے لیے بین کیا گیا ہے۔ اگر آپ متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں یا عنقریب وہاں کا سفر کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں تو وہاں پراکسی یا وی پی این کا استعمال بالکل مت کریں ورنہ بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑے گا اور جیل کی ہوا بھی کھانا پڑ سکتی ہے۔
Wednesday, 27 July 2016
Tuesday, 26 July 2016
Sunday, 24 July 2016
Friday, 22 July 2016
Wednesday, 20 July 2016
Haripur - SHO Sajid Farooq Arrested 04 No's Robber, Stolen Goods Recover
Tuesday, 19 July 2016
Monday, 18 July 2016
Indian The cheapest phone in the world was "fraud"
بھارت کی ایک کمپنی جس نےکہا تھا کہ وہ کم قیمت میں موبائل بنا کردیں گی وہ فراڈ نکلا
رواں سال دنیا کے سب سے سستے اسمارٹ فون کا اعلان کرکے سب کو حیران کرنے والوں کی حقیقت کھل کر سامنے آگئی۔ بھارت کا یہ ادارہ ‘رنگنگ بیل’ اب دعویٰ کررہا ہے کہ اسے ہر فون پر ڈھائی سے 4 ڈالرز کا نقصان ہورہا ہے، اس لیے بھارتی حکومت اسے ساڑھے 7 ارب ڈالرز فراہم کرے۔
‘فریڈم 251’ نامی یہ فون صرف 251 بھارتی روپے میں فروخت کیا جارہا ہے اور اس کو بنانے والے ادارے کے سی ای او موہت گوئل نے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کو لکھا ہے کہ کروڑوں بھارتی باشندوں کو سستے اسمارٹ فونز کی فراہمی کا وعدہ پورا کرنے کے لیے حکومت ان کی مدد کرے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت کے ڈیجیٹل انڈیا پروگرام کے تحت اگر سپورٹ فراہم کی جائے تو وہ ہر بھارتی کو اسمارٹ فون پہنچا سکتے ہیں، وہ بھی بروقت اور ایک ہی قیمت پر۔
کمپنی کو فون جاری کرنے سے پہلے ہی اس کے 73 ملین آرڈرز مل گئے تھے۔ یہ کتنی بڑی تعداد ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ بھارت میں ہر سہ ماہی میں اتنے ایپل فونز فروخت ہوتے ہیں۔ ادارے نے فروری میں وعدہ کیا تھا کہ وہ جولائی تک 25 لاکھ فونز فراہم کرے گا لیکن چار ماہ گزر جانے کے بعد وہ صرف 2 لاکھ فون تیار کر سکا۔ اب ادارہ کہتا ہے کہ اگر ہمیں مدد ملی تو وہ مزید فون فراہم کر سکیں گے یا پھر سرے سے نہیں دے سکیں گے۔
ایک فون پر آنے والی لاگت 17.49 ڈالرز ہے جس میں سے ایپ ڈیولپرز سے ہی 10 سے 11 ڈالرز لاگت حاصل کرلی گئی ہے۔ قیمت فروخت نکال کر بھی کمپنی کو 4 ڈالرز تک کا نقصان ہوگا۔
اتنی کم قیمت تو اپنی جگہ لیکن فون پر آنے والی اتنی کم لاگت اور اس پر خسارے کا دعویٰ کرکے سرکار سے پیسے اینٹھنے کی کوشش نے سب کے کان کھڑے کر دیے ہیں یہاں تک کہ بھارتی پارلیمنٹ میں حزب اختلاف نے اسے “صدی کا سب سے بڑا فراڈ” تک قرار دیا ہے۔
Urdu - I am a Husband
میں ایک میاں ہوں۔ مطیع وفرمانبردار، اپنی بیوی روشن آراء کو اپنی زندگی کی ہر ایک بات سے آگاہ رکھنا اصول زندگی سمجھتا ہوں اور ہمیشہ اس پر کاربند رہا ہوں۔ خدا میرا انجام بخیر کرے۔چنانچہ میری اہلیہ میرے دوستوں کی تمام عادات وخصائل سے واقف ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ میرے دوست جتنے مجھ کو عزیز ہیں اتنے ہی روشن آراء کو برے لگتے ہیں۔ میرے احباب کی جن اداؤں نے مجھے مسحور کررکھا ہے انہیں میری اہلیہ ایک شریف انسان کے ليے باعث ذلت سمجھتی ہیں۔
آپ کہیں یہ نہ سمجھ لیں کہ خدانحواستہ وہ کوئی ایسے آدمی ہیں، جن کا ذکر کسی معزز مجمع میں نہ کیا جاسکے۔ کچھ اپنے ہنر کے طفیل اور کچھ خاکسار کی صحبت کی بدولت سب کے سب ہی سفید پوش ہیں۔ لیکن اس بات کو کیا کروں کہ ان کی دوستی میرے گھر کے امن میں اس قدر خلل انداز ہوتی ہے کہ کچھ کہہ نہیں سکتا۔مثلاً مرزا صاحب ہی کو لیجیئے، اچھے خاصے اور بھلے آدمی ہیں۔ گو محکمہ جنگلات میں ایک معقول عہدے پر ممتاز ہیں لیکن شکل وصورت ایسی پاکیزہ پائی ہے کہ امام مسجد معلوم ہوتے ہیں۔ جواٴ وہ نہیں کھیلتے، گلی ڈنڈے کا ان کو شوق نہیں۔ جیب کترتے ہوئے کبھی وہ نہیں پکڑے گئے۔ البتہ کبوتر پال رکھے ہیں، ان ہی سے جی بہلاتے ہیں۔ ہماری اہلیہ کی یہ کیفیت ہے کہ محلے کا کوئی بدمعاش جوئے میں قید ہوجائے تو اس کی ماں کے پاس ماتم پرسی تک کو چلی جاتی ہیں۔ گلی ڈنڈے میں کسی کی آنکھ پھوٹ جائے تو مرہم پٹی کرتی رہتی ہیں۔ کوئی جیب کترا پکڑا جائے تو گھنٹوں آنسو بہاتی رہتی ہیں، لیکن وہ بزرگ جن کو دنیا بھر کی زبان مرزا صاحب کہتے تھکتی ہے وہ ہمارے گھر میں “موئے کبوترباز” کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں کبھی بھولے سے بھی میں آسمان کی طرف نظر اٹھا کر کسی چیل، کوے، گدھ، شکرے کو دیکھنے لگ جاؤں تو روشن آراء کو فوراً خیال ہوجاتا ہے کہ بس اب یہ بھی کبوترباز بننے لگا۔اس کے بعد مرزا صاحب کی شان میں ایک قصیدہ شروع ہوجاتا ہے۔ بیچ میں میری جانب گریز۔ کبھی لمبی بحر میں، کبھی چھوٹی بحر میں۔
ایک دن جب یہ واقعہ پیش آیا، تو میں نے مصمم ارادہ کرلیا کہ اس مرزا کمبخت کو کبھی پاس نہ پھٹکنے دوں گا، آخر گھر سب سے مقدم ہے۔ بیوی کے باہمی اخلاص کے مقابلے میں دوستوں کی خوشنودی کیا چیز ہے؟ چنانچہ ہم غصے میں بھرے ہوئے مرزا صاحب کے گھر گئے، دروازہ کھٹکھٹایا۔ کہنے لگے اندر آجاؤ۔ ہم نے کہا، نہیں آتے تم باہر آؤ۔ خیر اندر گیا۔ بدن پر تیل مل کر ایک کبوتر کی چونچ منہ میں لئے دھوپ میں بیٹھے تھے۔ کہنے لگے بیٹھ جاؤ ہم نے کہا، بیٹھیں گے نہیں، آخر بیٹھ گئے معلوم ہوتا ہے ہمارے تیور کچھ بگڑے ہوئے تھے، مرزا بولے کیوں بھئی؟ خیرباشد! میں نے کہا کچھ نہیں۔ کہنے لگے اس وقت کیسے آنا ہوا؟اب میرے دل میں فقرے کھولنے شروع ہوئے۔ پہلے ارادہ کیا کہ ایک دم ہی سب کچھ کہہ ڈالو اور چل دو، پھر سوچا کہ مذاق سمجھے گا اس ليے کسی ڈھنگ سے بات شروع کرو۔ لیکن سمجھ میں نہ آیا کہ پہلے کیا کہیں، آخر ہم نے کہا۔“مرزا، بھئی کبوتر بہت مہنگے ہوتے ہیں؟”
یہ سنتے ہی مرزا صاحب نے چین سے لے کر امریکہ تک کے تمام کبوتروں کو ایک ایک کرکے گنوانا شروع کیا۔ اس کے بعد دانے کی مہنگائی کے متعلق گل افشانی کرتے رہے اور پھر محض مہنگائی پر تقریر کرنے لگے۔ اس دن تو ہم یوں ہی چلے آئے لیکن ابھی کھٹ پٹ کا ارادہ دل میں باقی تھا۔ خدا کا کرنا کیا ہوا کہ شام کو گھر میں ہماری صلح ہوگئی۔ ہم نے کہا، چلو اب مزرا کے ساتھ بگاڑنے سے کیا حاصل؟ چنانچہ دوسرے دن مرزا سے بھی صلح صفائی ہوگئی۔لیکن میری زندگی تلخ کرنے کے ليے ایک نہ ایک دوست ہمیشہ کارآمد ہوتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فطرت نے میری طبیعت میں قبولیت اور صلاحیت کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے کیونکہ ہماری اہلیہ کو ہم میں ہر وقت کسی نہ کسی دوست کی عادات قبیحہ کی جھلک نظر آتی رہتی ہے یہاں تک کہ میری اپنی ذاتی شخصی سیرت بالکل ہی ناپید ہوچکی ہے۔
شادی سے پہلے ہم کبھی کبھی دس بجے اٹھا کرتے تھے ورنہ گیارہ بجے۔ اب کتنے بجے اٹھتے ہیں؟ اس کا اندازہ وہی لوگ لگاسکتے ہیں جن کے گھر ناشتہ زبردستی صبح کے سات بجے کرا دیا جاتا ہےاور اگر ہم کبھی بشری کمزوری کے تقاضے سے مرغوں کی طرح تڑکے اُٹھنے میں کوتاہی کریں تو فوراً ہی کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ اس نکھٹو نسیم کی صحبت کا نتیجہ ہے۔ ایک دن صبح صبح ہم نہا رہے تھے، سردی کا موسم ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے، صابن سر پر ملتے تھے تو ناک میں گھستا تھا کہ اتنے میں ہم نے خدا جانے کس پراسرار جذبے کے ماتحت غسل خانے میں الاپنا شروع کیا۔ اور پھر گانے لگے کہ “توری چھل بل ہے نیاری۔۔۔”اس کو ہماری انتہائی بدمذاقی سمجھا گیا، اور اس بدمذاقی کا اصل منبع ہمارے دوست پنڈت جی کو ٹھہرایا گیا۔لیکن حال ہی میں مجھ پر ایک ایسا سانحہ گزرا ہے کہ میں نے تمام دوستوں کو ترک کر دینے کی قسم کھالی ہے۔
تین چار دن کا ذکر ہے کہ صبح کے وقت روشن آراء نے مجھ سے میکے جانے کے لیے اجازت مانگی۔ جب سے ہماری شادی ہوئی ہے، روشن آراء صرف دو دفعہ میکے گئی ہے اور پھر اس نے کچھ اس سادگی اور عجز سے کہا کہ میں انکار نہ کرسکا۔ کہنے لگی تو پھر میں ڈیڑھ بجے کی گاڑی میں چلی جاؤں؟ میں نے کہا اور کیا؟وہ جھٹ تیاری میں مشغول ہوگئی اور میرے دماغ میں آزادی کے خیالات نے چکر لگانے شروع کئے۔ یعنی اب بےشک دوست آئیں، بےشک ادوھم مچائیں، میں بےشک گاؤں، بےشک جب چاہوں اُٹھوں، بےشک تھیٹر جاؤں، میں نے کہا۔
“روشن آراء جلدی کرو، نہیں تو گاڑی چھوٹ جائے گی۔” ساتھ اسٹیشن پر گیا۔ جب گاڑی میں سوار کراچکا تو کہنے لگی “خط روز لکھتے رہئے!” میں نے کہا”ہر روز اور تم بھی!”“کھانا وقت پہ کھا لیا کیجیئے اور ہاں دھلی ہوئی جرابیں اور رومال الماری کے نچلے خانے میں پڑے ہیں”۔ اس کے بعد ہم دونوں خاموش ہوگئے۔ اور ایک دوسرے کے چہرے کو دیکھتے رہے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے، میرا دل بھی بیتاب ہونے لگا اور جب گاڑی روانہ ہوئی تو میں دیر تک مبہوت پلیٹ فارم پر کھڑا رہا۔آخر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا کتابوں کی دکان تک آیا اور رسالوں کے ورق پلٹ پلٹ کر تصویریں دیکھتا رہا۔ ایک اخبار خریدا، تہہ کرکے جیب ڈالا اور عادت کے مطابق گھر کا ارادہ کیا۔
پھر خیال آیا کہ اب گھر جانا ضروری نہیں رہا۔ اب جہاں چاہوں جاؤں، چاہوں تو گھنٹوں اسٹیشن پر ہی ٹہلتا رہوں، دل چاہتا تھا قلابازیاں کھاؤں۔کہتے ہیں، جب افریقہ کے وحشیوں کو کسی تہذیب یافتہ ملک میں کچھ عرصہ رکھا جاتا ہے تو گو وہ وہاں کی شان وشوکت سے بہت متاثر ہوتے ہیں۔ لیکن جب واپس جنگلوں میں پہنچتے ہیں تو خوشی کے مارے چیخیں مارتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی کیفیت میرے دل کی بھی ہو رہی تھی۔ بھاگتا ہوا اسٹیشن سے آزادانہ باہر نکلا، آزادی کے لہجہ میں تانگے والے کو بلایا اور کود کر تانگے میں سوار ہوگیا۔ سگریٹ سلگا لیا، ٹانگیں سیٹ پر پھیلا دیں اور کلب کو روانہ ہوگیا۔رستے میں ایک بہت ضروری کام یاد آیا، تانگہ موڑ کر گھر کی طرف پلٹا، باہر ہی سے نوکرکو آوازد دی۔“امجد”“حضور!”“دیکھو، حجام کو جاکے کہہ دو کہ کل گیارہ بجے آئے۔”“بہت اچھا۔”“گیارہ بجے سن لی نا؟ کہیں روز کی طرح پھر چھ بجے وارد نہ ہوجائے۔”“بہت اچھا حضور۔”“اور اگر گیارہ بجے سے پہلے آئے، تو دھکے دے کر باہر نکال دو۔”یہاں سے کلب پہنچے، آج تک کبھی دن کے دو بجے کلب نہ گیا تھا، اندر داخل ہوا تو سنسان۔ آدمی کا نام ونشان تک نہیں سب کمرے دیکھ ڈالیے۔ بلیرڈ کا کمرہ خالی، شطرنج کا کمرہ خالی۔ تاش کا کمرہ خالی، صرف کھانے کے کمرے میں ایک ملازم چھریاں تیز کررہا تھا۔ اس سے پوچھا”کیوں بے آج کوئی نہیں آيا؟”کہنے لگا “حضور آپ جانتے ہیں، اس وقت بھلا کون آتا ہے؟”
بہت مایوس ہوا باہر نکل کر سوچنے لگا کہ اب کیا کروں؟ اور کچھ نہ سوجھا تو وہاں سے مرزا صاحب کے گھر پہنچا معلوم ہوا ابھی دفتر سے واپس نہیں آئے، دفتر پہنچا دیکھ کر بہت حیران ہوئے، میں نے سب حال بیان کیا کہنے لگے۔ “تم باہر کے کمرے میں ٹھہرو، تھوڑا سا کام رہ گیا ہے، بس ابھی بھگتا کے تمہارے ساتھ چلتا ہوں، شام کا پروگرام کیا ہے؟”میں نے کہا۔ “تھیٹر!”کہنے لگے۔ “بس بہت ٹھیک ہے، تم باہر بیٹھو میں ابھی آیا۔”
باہرکے کمرے میں ایک چھوٹی سی کرسی پڑی تھی، اس پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگا اور جیب سے اخبار نکال کر پڑھنا شروع کردیا۔ شروع سے آخر تک سب پڑھ ڈالا اور ابھی چار بجنے میں ایک گھنٹہ باقی تھا، پھر سے پڑھنا شروع کردیا۔ سب اشتہار پڑھ ڈالےاور پھر سب اشتہاروں کو دوبارہ پڑھ ڈالا۔آخر کار اخبار پھینک کر بغیر کسی تکلف یا لحاظ کے جمائیاں لینے لگا۔ جمائی پہ جمائی۔جمائی پہ جمائی۔ حتیٰ کہ جبڑوں میں درد ہونے لگا۔اس کے بعد ٹانگیں ہلانا شروع کیں لیکن اس سے بھی تھک گیا۔پھر میز پر طبلے کی گتیں بجاتا رہا۔بہت تنگ آگیا تو دروازہ کھول کر مرزا سے کہا۔ “ابے یار اب چلتا بھی ہے کہ مجھے انتظار ہی میں مار ڈالے گا، مردود کہیں کا، سارا دن میرا ضائع کردیا۔”
وہاں سے اُٹھ کر مرزا کے گھر گئے۔ شام بڑے لطف میں کٹی۔ کھانا کلب میں کھایا۔ اور وہاں سے دوستوں کو ساتھ ليے تھیٹر گئے، رات کے ڈھائی بجے گھر لوٹے، تکئے پر سر رکھا ہی تھا، کہ نیند نے بےہوش کردیا۔ صبح آنکھ کھلی تو کمرے میں دھوپ لہریں مار رہی تھی۔ گھڑی کو دیکھا تو پونے گیارہ بجے تھے۔ ہاتھ بڑھا کر میز پر سے ایک سگریٹ اٹھایا اور سلگا کر طشتری میں رکھ دیا اور پھر اونگھنے لگا۔گیارہ بجے امجد کمرے میں داخل ہوا کہنے لگا “حضور حجام آیا ہے۔”
ہم نے کہا۔ “یہیں بلا لاؤ”۔ یہ عیش مدت بعد نصیب ہوا، کہ بستر میں لیٹے لیٹے حجامت بنوالیں، اطمینان سے اٹھے اور نہا دھو کر باہر جانے کےليے تیار ہوئے لیکن طبیعت میں وہ شگفتگی نہ تھی، جس کی امید لگائے بیٹھے تھے، چلتے وقت الماری سے رومال نکالا تو خدا جانے کیا خیال۔ دل میں آیا، وہیں کرسی پر بیٹھ گیا۔ اور سودائیوں کی طرح اس رومال کو دیکھتا رہا۔ الماری کا ایک اور خانہ کھولا تو سرمئی رنگ کا ایک ریشمی دوپٹہ نظر آیا۔ باہر نکالا، ہلکی ہلکی عطر کی خوشبو آرہی تھی۔ بہت دیر تک اس پر ہاتھ پھیرتا رہا دل بھرآیا، گھر سونا معلوم ہونے لگا۔ بہتیرا اپنے آپ کو سنبھالا لیکن آنسو ٹپک ہی پڑے۔ آنسوؤں کا گرنا تھا کہ بیتاب ہوگیا۔ اور سچ مچ رونے لگا۔ سب جوڑے باری باری نکال کر دیکھے لیکن نہ معلوم کیا کیا یاد آیا کہ اور بھی بےقرار ہوتا گیا۔آخر نہ رہا گیا، باہر نکلا اور سیدھا تار گھر پہنچا۔ وہاں سے تار دیا کہ میں بہت اداس ہوں تم فوراً آجاؤ!تار دینے کے بعد دل کو کچھ اطمینان ہوا، یقین تھا کہ روشن آراء اب جس قدر جلد ہوسکے گا، آجائے گی۔ اس سے کچھ ڈھارس بندھ گئی اور دل پر سے جیسے ایک بوجھ ہٹ گیا۔
دوسرے دن دوپہر کو مرزا کے مکان پر تاش کا معرکہ گرم ہونا تھا۔ وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ مرزا کے والد سے کچھ لوگ ملنے آئے ہیں اس ليے تجویز یہ ٹھہری کہ یہاں سے کسی اور جگہ سرک چلو۔ ہمارا مکان تو خالی تھا ہی، سب یار لوگ وہیں جمع ہوئے۔ امجد سے کہہ دیا گیا کہ حقے میں اگر ذرا بھی خلل واقع ہوا تو تمہاری خیر نہیں۔ اور پان اس طرح سے متواتر پہنچتے رہیں کہ بس تانتا لگ جائے۔اب اس کے بعد کے واقعات کو کچھ مرد ہی اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ شروع شروع میں تو تاش باقاعدہ اور باضابطہ ہوتا رہا۔ جو کھیل بھی کھیلا گیا بہت معقول طریقے سے قواعدوضوابط کے مطابق اور متانت وسنجیدگی کے ساتھ۔ لیکن ایک دو گھنٹے کے بعد کچھ خوش طبعی شروع ہوئی، یار لوگوں نے ایک دوسرے کے پتے دیکھنے شروع کردیئے۔ یہ حالت تھی کہ آنکھ بچی نہیں اور ایک آدھ کام کا پتہ اُڑا نہیں اور ساتھ ہی قہقہےپر قہقہے اُڑنے لگے۔ تین گھنٹے کے بعد یہ حالت تھی کہ کوئی گھٹنا ہلا ہلا کر گا رہا ہے کوئی فرش پر بازو ٹیکے بجا رہا ہے۔ کوئی تھیٹر کا ایک آدھ مذاقیہ فقرہ لاکھوں دفعہ دہرا رہا ہے۔ لیکن تاش برابر ہورہا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد دھول دھپا شروع ہوا، ان خوش فعلیوں کے دوران میں ایک مسخرے نے ایک ایسا کھیل تجویز کردیا۔ جس کے آخر میں ایک آدمی بادشاہ بن جاتا ہے۔ دوسرا وزیر، تیسرا کوتوال اور جو سب سے ہار جاتا ہے۔ وہ چور۔ سب نے کہا “واہ واہ کیا بات کہی ہے”۔ ایک بولا۔ “پھر آج جو چور بنا، اس کی شامت آجائے گی”۔ دوسرے نے کہا۔ “اور نہیں تو کیا بھلا کوئی ایسا ویسا کھیل ہے۔ سلطنتوں کے معاملے ہیں سلطنتوں کے!”کھیل شروع ہوا۔ بدقسمتی سے ہم چور بن گئے۔ طرح طرح کی سزائیں تجویز ہونے لگیں۔ کوئی کہے، “ننگے پاؤں بھاگتے ہوئے جائے اور حلوائی کی دکان سے مٹھائی خرید کر لائے”۔ کوئی کہے، “نہیں حضور، سب کے پاؤں پڑے، اور ہر ایک سے دو دو چانٹے کھائے۔” دوسرے نے کہا “نہیں صاحب ایک پاؤں پر کھڑا ہو کر ہمارے سامنے ناچے۔” آخر میں بادشاہ سلامت بولے۔ “ہم حکم دیتے ہیں کہ چور کو کاغذ کی ایک لمبوتری نوک دار ٹوپی پہنائی جائے اور اس کے چہرے پر سیاہی مل دی جائے۔ اور یہ اس حالت میں جاکر اندرسے حقے کی چلم بھر کر لائے۔” سب نے کہا۔ “کیا دماغ پایا ہے حضور نے۔ کیا سزا تجویز کی ہے! واہ واہ!”ہم بھی مزے میں آئے ہوئے تھے، ہم نے کہا “تو ہوا کیا؟ آج ہم ہیں کل کسی اور کی باری آجائے گی۔” نہایت خندہ پیشانی سے اپنے چہرے کو پیش کیا۔ ہنس ہنس کر وہ بیہودہ سی ٹوپی پہنی، ایک شان استغنا کے ساتھ چلم اٹھائی اور زنانے کا دروازہ کھول کر باورچی خانے کو چل دیئے اور ہمارے پیچھے کمرہ قہقہوں سے گونج رہا تھا۔
صحن پر پہنچےہی تھے کہ باہر کا دروازہ کھلا اور ایک برقعہ پوش خاتون اندر داخل ہوئی، منہ سے برقعہ الٹا تو روشن آراء!دم خشک ہوگیا، بدن پر ایک لرزہ سا طاری ہوگیا، زبان بند ہوگئی، سامنے وہ روشن آراء جس کو میں نے تار دے کر بلایا تھا کہ تم فوراً آجاؤ میں بہت اداس ہوں اور اپنی یہ حالت کو منہ پر سیاہی ملی ہے، سر پر وہ لمبوتری سی کاغذ کی ٹوپی پہن رکھی ہے اور ہاتھ میں چلم اٹھائے کھڑے ہیں، اور مردانے سے قہقہوں کا شور برابر آرہا ہے۔روح منجمد ہوگئی اور تمام حواس نے جواب دے دیا۔ روشن آراء کچھ دیر تک چپکی کھڑی دیکھتی رہی اور پھر کہنے لگی۔۔۔ لیکن میں کیا بتاؤں کہ کیا کہنے لگی؟ اس کی آواز تو میرے کانوں تک جیسے بیہوشی کے عالم میں پہنچ رہی تھی۔اب تک آپ اتنا تو جان گئے ہوں گے، کہ میں بذات خود از حد شریف واقع ہوا ہوں، جہاں تک میں، میں ہوں مجھ سے بہتر میاں دنیا پیدا نہیں کرسکتی، میری سسرال میں سب کی یہی رائے ہے۔ اور میرا اپنا ایمان بھی یہی ہے لیکن ان دوستوں نے مجھے رسوا کردیا ہے۔ اس ليے میں نے مصمم ارادہ کرلیا ہے کہ اب یا گھر میں رہوں گا یا کام پر جایا کروں گا۔ نہ کسی سے ملوں گا اور نہ کسی کو اپنے گھر آنے دوں گا سوائے ڈاکیے یا حجام کے۔ اور ان سے بھی نہایت مختصر باتیں کروں گا۔“خط ہے؟”“جی ہاں”“دے جاؤ، چلے جاؤ۔”“ناخن تراش دو۔”“بھاگ جاؤ۔”بس، اس سے زیادہ کلام نہ کروں گا، آپ دیکھئے تو سہی!
Urdu - I am a Husband
میں ایک میاں ہوں۔ مطیع وفرمانبردار، اپنی بیوی روشن آراء کو اپنی زندگی کی ہر ایک بات سے آگاہ رکھنا اصول زندگی سمجھتا ہوں اور ہمیشہ اس پر کاربند رہا ہوں۔ خدا میرا انجام بخیر کرے۔چنانچہ میری اہلیہ میرے دوستوں کی تمام عادات وخصائل سے واقف ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ میرے دوست جتنے مجھ کو عزیز ہیں اتنے ہی روشن آراء کو برے لگتے ہیں۔ میرے احباب کی جن اداؤں نے مجھے مسحور کررکھا ہے انہیں میری اہلیہ ایک شریف انسان کے ليے باعث ذلت سمجھتی ہیں۔
آپ کہیں یہ نہ سمجھ لیں کہ خدانحواستہ وہ کوئی ایسے آدمی ہیں، جن کا ذکر کسی معزز مجمع میں نہ کیا جاسکے۔ کچھ اپنے ہنر کے طفیل اور کچھ خاکسار کی صحبت کی بدولت سب کے سب ہی سفید پوش ہیں۔ لیکن اس بات کو کیا کروں کہ ان کی دوستی میرے گھر کے امن میں اس قدر خلل انداز ہوتی ہے کہ کچھ کہہ نہیں سکتا۔مثلاً مرزا صاحب ہی کو لیجیئے، اچھے خاصے اور بھلے آدمی ہیں۔ گو محکمہ جنگلات میں ایک معقول عہدے پر ممتاز ہیں لیکن شکل وصورت ایسی پاکیزہ پائی ہے کہ امام مسجد معلوم ہوتے ہیں۔ جواٴ وہ نہیں کھیلتے، گلی ڈنڈے کا ان کو شوق نہیں۔ جیب کترتے ہوئے کبھی وہ نہیں پکڑے گئے۔ البتہ کبوتر پال رکھے ہیں، ان ہی سے جی بہلاتے ہیں۔ ہماری اہلیہ کی یہ کیفیت ہے کہ محلے کا کوئی بدمعاش جوئے میں قید ہوجائے تو اس کی ماں کے پاس ماتم پرسی تک کو چلی جاتی ہیں۔ گلی ڈنڈے میں کسی کی آنکھ پھوٹ جائے تو مرہم پٹی کرتی رہتی ہیں۔ کوئی جیب کترا پکڑا جائے تو گھنٹوں آنسو بہاتی رہتی ہیں، لیکن وہ بزرگ جن کو دنیا بھر کی زبان مرزا صاحب کہتے تھکتی ہے وہ ہمارے گھر میں “موئے کبوترباز” کے نام سے یاد کئے جاتے ہیں کبھی بھولے سے بھی میں آسمان کی طرف نظر اٹھا کر کسی چیل، کوے، گدھ، شکرے کو دیکھنے لگ جاؤں تو روشن آراء کو فوراً خیال ہوجاتا ہے کہ بس اب یہ بھی کبوترباز بننے لگا۔اس کے بعد مرزا صاحب کی شان میں ایک قصیدہ شروع ہوجاتا ہے۔ بیچ میں میری جانب گریز۔ کبھی لمبی بحر میں، کبھی چھوٹی بحر میں۔
ایک دن جب یہ واقعہ پیش آیا، تو میں نے مصمم ارادہ کرلیا کہ اس مرزا کمبخت کو کبھی پاس نہ پھٹکنے دوں گا، آخر گھر سب سے مقدم ہے۔ بیوی کے باہمی اخلاص کے مقابلے میں دوستوں کی خوشنودی کیا چیز ہے؟ چنانچہ ہم غصے میں بھرے ہوئے مرزا صاحب کے گھر گئے، دروازہ کھٹکھٹایا۔ کہنے لگے اندر آجاؤ۔ ہم نے کہا، نہیں آتے تم باہر آؤ۔ خیر اندر گیا۔ بدن پر تیل مل کر ایک کبوتر کی چونچ منہ میں لئے دھوپ میں بیٹھے تھے۔ کہنے لگے بیٹھ جاؤ ہم نے کہا، بیٹھیں گے نہیں، آخر بیٹھ گئے معلوم ہوتا ہے ہمارے تیور کچھ بگڑے ہوئے تھے، مرزا بولے کیوں بھئی؟ خیرباشد! میں نے کہا کچھ نہیں۔ کہنے لگے اس وقت کیسے آنا ہوا؟اب میرے دل میں فقرے کھولنے شروع ہوئے۔ پہلے ارادہ کیا کہ ایک دم ہی سب کچھ کہہ ڈالو اور چل دو، پھر سوچا کہ مذاق سمجھے گا اس ليے کسی ڈھنگ سے بات شروع کرو۔ لیکن سمجھ میں نہ آیا کہ پہلے کیا کہیں، آخر ہم نے کہا۔“مرزا، بھئی کبوتر بہت مہنگے ہوتے ہیں؟”
یہ سنتے ہی مرزا صاحب نے چین سے لے کر امریکہ تک کے تمام کبوتروں کو ایک ایک کرکے گنوانا شروع کیا۔ اس کے بعد دانے کی مہنگائی کے متعلق گل افشانی کرتے رہے اور پھر محض مہنگائی پر تقریر کرنے لگے۔ اس دن تو ہم یوں ہی چلے آئے لیکن ابھی کھٹ پٹ کا ارادہ دل میں باقی تھا۔ خدا کا کرنا کیا ہوا کہ شام کو گھر میں ہماری صلح ہوگئی۔ ہم نے کہا، چلو اب مزرا کے ساتھ بگاڑنے سے کیا حاصل؟ چنانچہ دوسرے دن مرزا سے بھی صلح صفائی ہوگئی۔لیکن میری زندگی تلخ کرنے کے ليے ایک نہ ایک دوست ہمیشہ کارآمد ہوتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فطرت نے میری طبیعت میں قبولیت اور صلاحیت کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے کیونکہ ہماری اہلیہ کو ہم میں ہر وقت کسی نہ کسی دوست کی عادات قبیحہ کی جھلک نظر آتی رہتی ہے یہاں تک کہ میری اپنی ذاتی شخصی سیرت بالکل ہی ناپید ہوچکی ہے۔
شادی سے پہلے ہم کبھی کبھی دس بجے اٹھا کرتے تھے ورنہ گیارہ بجے۔ اب کتنے بجے اٹھتے ہیں؟ اس کا اندازہ وہی لوگ لگاسکتے ہیں جن کے گھر ناشتہ زبردستی صبح کے سات بجے کرا دیا جاتا ہےاور اگر ہم کبھی بشری کمزوری کے تقاضے سے مرغوں کی طرح تڑکے اُٹھنے میں کوتاہی کریں تو فوراً ہی کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ اس نکھٹو نسیم کی صحبت کا نتیجہ ہے۔ ایک دن صبح صبح ہم نہا رہے تھے، سردی کا موسم ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے، صابن سر پر ملتے تھے تو ناک میں گھستا تھا کہ اتنے میں ہم نے خدا جانے کس پراسرار جذبے کے ماتحت غسل خانے میں الاپنا شروع کیا۔ اور پھر گانے لگے کہ “توری چھل بل ہے نیاری۔۔۔”اس کو ہماری انتہائی بدمذاقی سمجھا گیا، اور اس بدمذاقی کا اصل منبع ہمارے دوست پنڈت جی کو ٹھہرایا گیا۔لیکن حال ہی میں مجھ پر ایک ایسا سانحہ گزرا ہے کہ میں نے تمام دوستوں کو ترک کر دینے کی قسم کھالی ہے۔
تین چار دن کا ذکر ہے کہ صبح کے وقت روشن آراء نے مجھ سے میکے جانے کے لیے اجازت مانگی۔ جب سے ہماری شادی ہوئی ہے، روشن آراء صرف دو دفعہ میکے گئی ہے اور پھر اس نے کچھ اس سادگی اور عجز سے کہا کہ میں انکار نہ کرسکا۔ کہنے لگی تو پھر میں ڈیڑھ بجے کی گاڑی میں چلی جاؤں؟ میں نے کہا اور کیا؟وہ جھٹ تیاری میں مشغول ہوگئی اور میرے دماغ میں آزادی کے خیالات نے چکر لگانے شروع کئے۔ یعنی اب بےشک دوست آئیں، بےشک ادوھم مچائیں، میں بےشک گاؤں، بےشک جب چاہوں اُٹھوں، بےشک تھیٹر جاؤں، میں نے کہا۔
“روشن آراء جلدی کرو، نہیں تو گاڑی چھوٹ جائے گی۔” ساتھ اسٹیشن پر گیا۔ جب گاڑی میں سوار کراچکا تو کہنے لگی “خط روز لکھتے رہئے!” میں نے کہا”ہر روز اور تم بھی!”“کھانا وقت پہ کھا لیا کیجیئے اور ہاں دھلی ہوئی جرابیں اور رومال الماری کے نچلے خانے میں پڑے ہیں”۔ اس کے بعد ہم دونوں خاموش ہوگئے۔ اور ایک دوسرے کے چہرے کو دیکھتے رہے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے، میرا دل بھی بیتاب ہونے لگا اور جب گاڑی روانہ ہوئی تو میں دیر تک مبہوت پلیٹ فارم پر کھڑا رہا۔آخر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا کتابوں کی دکان تک آیا اور رسالوں کے ورق پلٹ پلٹ کر تصویریں دیکھتا رہا۔ ایک اخبار خریدا، تہہ کرکے جیب ڈالا اور عادت کے مطابق گھر کا ارادہ کیا۔
پھر خیال آیا کہ اب گھر جانا ضروری نہیں رہا۔ اب جہاں چاہوں جاؤں، چاہوں تو گھنٹوں اسٹیشن پر ہی ٹہلتا رہوں، دل چاہتا تھا قلابازیاں کھاؤں۔کہتے ہیں، جب افریقہ کے وحشیوں کو کسی تہذیب یافتہ ملک میں کچھ عرصہ رکھا جاتا ہے تو گو وہ وہاں کی شان وشوکت سے بہت متاثر ہوتے ہیں۔ لیکن جب واپس جنگلوں میں پہنچتے ہیں تو خوشی کے مارے چیخیں مارتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی کیفیت میرے دل کی بھی ہو رہی تھی۔ بھاگتا ہوا اسٹیشن سے آزادانہ باہر نکلا، آزادی کے لہجہ میں تانگے والے کو بلایا اور کود کر تانگے میں سوار ہوگیا۔ سگریٹ سلگا لیا، ٹانگیں سیٹ پر پھیلا دیں اور کلب کو روانہ ہوگیا۔رستے میں ایک بہت ضروری کام یاد آیا، تانگہ موڑ کر گھر کی طرف پلٹا، باہر ہی سے نوکرکو آوازد دی۔“امجد”“حضور!”“دیکھو، حجام کو جاکے کہہ دو کہ کل گیارہ بجے آئے۔”“بہت اچھا۔”“گیارہ بجے سن لی نا؟ کہیں روز کی طرح پھر چھ بجے وارد نہ ہوجائے۔”“بہت اچھا حضور۔”“اور اگر گیارہ بجے سے پہلے آئے، تو دھکے دے کر باہر نکال دو۔”یہاں سے کلب پہنچے، آج تک کبھی دن کے دو بجے کلب نہ گیا تھا، اندر داخل ہوا تو سنسان۔ آدمی کا نام ونشان تک نہیں سب کمرے دیکھ ڈالیے۔ بلیرڈ کا کمرہ خالی، شطرنج کا کمرہ خالی۔ تاش کا کمرہ خالی، صرف کھانے کے کمرے میں ایک ملازم چھریاں تیز کررہا تھا۔ اس سے پوچھا”کیوں بے آج کوئی نہیں آيا؟”کہنے لگا “حضور آپ جانتے ہیں، اس وقت بھلا کون آتا ہے؟”
بہت مایوس ہوا باہر نکل کر سوچنے لگا کہ اب کیا کروں؟ اور کچھ نہ سوجھا تو وہاں سے مرزا صاحب کے گھر پہنچا معلوم ہوا ابھی دفتر سے واپس نہیں آئے، دفتر پہنچا دیکھ کر بہت حیران ہوئے، میں نے سب حال بیان کیا کہنے لگے۔ “تم باہر کے کمرے میں ٹھہرو، تھوڑا سا کام رہ گیا ہے، بس ابھی بھگتا کے تمہارے ساتھ چلتا ہوں، شام کا پروگرام کیا ہے؟”میں نے کہا۔ “تھیٹر!”کہنے لگے۔ “بس بہت ٹھیک ہے، تم باہر بیٹھو میں ابھی آیا۔”
باہرکے کمرے میں ایک چھوٹی سی کرسی پڑی تھی، اس پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگا اور جیب سے اخبار نکال کر پڑھنا شروع کردیا۔ شروع سے آخر تک سب پڑھ ڈالا اور ابھی چار بجنے میں ایک گھنٹہ باقی تھا، پھر سے پڑھنا شروع کردیا۔ سب اشتہار پڑھ ڈالےاور پھر سب اشتہاروں کو دوبارہ پڑھ ڈالا۔آخر کار اخبار پھینک کر بغیر کسی تکلف یا لحاظ کے جمائیاں لینے لگا۔ جمائی پہ جمائی۔جمائی پہ جمائی۔ حتیٰ کہ جبڑوں میں درد ہونے لگا۔اس کے بعد ٹانگیں ہلانا شروع کیں لیکن اس سے بھی تھک گیا۔پھر میز پر طبلے کی گتیں بجاتا رہا۔بہت تنگ آگیا تو دروازہ کھول کر مرزا سے کہا۔ “ابے یار اب چلتا بھی ہے کہ مجھے انتظار ہی میں مار ڈالے گا، مردود کہیں کا، سارا دن میرا ضائع کردیا۔”
وہاں سے اُٹھ کر مرزا کے گھر گئے۔ شام بڑے لطف میں کٹی۔ کھانا کلب میں کھایا۔ اور وہاں سے دوستوں کو ساتھ ليے تھیٹر گئے، رات کے ڈھائی بجے گھر لوٹے، تکئے پر سر رکھا ہی تھا، کہ نیند نے بےہوش کردیا۔ صبح آنکھ کھلی تو کمرے میں دھوپ لہریں مار رہی تھی۔ گھڑی کو دیکھا تو پونے گیارہ بجے تھے۔ ہاتھ بڑھا کر میز پر سے ایک سگریٹ اٹھایا اور سلگا کر طشتری میں رکھ دیا اور پھر اونگھنے لگا۔گیارہ بجے امجد کمرے میں داخل ہوا کہنے لگا “حضور حجام آیا ہے۔”
ہم نے کہا۔ “یہیں بلا لاؤ”۔ یہ عیش مدت بعد نصیب ہوا، کہ بستر میں لیٹے لیٹے حجامت بنوالیں، اطمینان سے اٹھے اور نہا دھو کر باہر جانے کےليے تیار ہوئے لیکن طبیعت میں وہ شگفتگی نہ تھی، جس کی امید لگائے بیٹھے تھے، چلتے وقت الماری سے رومال نکالا تو خدا جانے کیا خیال۔ دل میں آیا، وہیں کرسی پر بیٹھ گیا۔ اور سودائیوں کی طرح اس رومال کو دیکھتا رہا۔ الماری کا ایک اور خانہ کھولا تو سرمئی رنگ کا ایک ریشمی دوپٹہ نظر آیا۔ باہر نکالا، ہلکی ہلکی عطر کی خوشبو آرہی تھی۔ بہت دیر تک اس پر ہاتھ پھیرتا رہا دل بھرآیا، گھر سونا معلوم ہونے لگا۔ بہتیرا اپنے آپ کو سنبھالا لیکن آنسو ٹپک ہی پڑے۔ آنسوؤں کا گرنا تھا کہ بیتاب ہوگیا۔ اور سچ مچ رونے لگا۔ سب جوڑے باری باری نکال کر دیکھے لیکن نہ معلوم کیا کیا یاد آیا کہ اور بھی بےقرار ہوتا گیا۔آخر نہ رہا گیا، باہر نکلا اور سیدھا تار گھر پہنچا۔ وہاں سے تار دیا کہ میں بہت اداس ہوں تم فوراً آجاؤ!تار دینے کے بعد دل کو کچھ اطمینان ہوا، یقین تھا کہ روشن آراء اب جس قدر جلد ہوسکے گا، آجائے گی۔ اس سے کچھ ڈھارس بندھ گئی اور دل پر سے جیسے ایک بوجھ ہٹ گیا۔
دوسرے دن دوپہر کو مرزا کے مکان پر تاش کا معرکہ گرم ہونا تھا۔ وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ مرزا کے والد سے کچھ لوگ ملنے آئے ہیں اس ليے تجویز یہ ٹھہری کہ یہاں سے کسی اور جگہ سرک چلو۔ ہمارا مکان تو خالی تھا ہی، سب یار لوگ وہیں جمع ہوئے۔ امجد سے کہہ دیا گیا کہ حقے میں اگر ذرا بھی خلل واقع ہوا تو تمہاری خیر نہیں۔ اور پان اس طرح سے متواتر پہنچتے رہیں کہ بس تانتا لگ جائے۔اب اس کے بعد کے واقعات کو کچھ مرد ہی اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ شروع شروع میں تو تاش باقاعدہ اور باضابطہ ہوتا رہا۔ جو کھیل بھی کھیلا گیا بہت معقول طریقے سے قواعدوضوابط کے مطابق اور متانت وسنجیدگی کے ساتھ۔ لیکن ایک دو گھنٹے کے بعد کچھ خوش طبعی شروع ہوئی، یار لوگوں نے ایک دوسرے کے پتے دیکھنے شروع کردیئے۔ یہ حالت تھی کہ آنکھ بچی نہیں اور ایک آدھ کام کا پتہ اُڑا نہیں اور ساتھ ہی قہقہےپر قہقہے اُڑنے لگے۔ تین گھنٹے کے بعد یہ حالت تھی کہ کوئی گھٹنا ہلا ہلا کر گا رہا ہے کوئی فرش پر بازو ٹیکے بجا رہا ہے۔ کوئی تھیٹر کا ایک آدھ مذاقیہ فقرہ لاکھوں دفعہ دہرا رہا ہے۔ لیکن تاش برابر ہورہا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد دھول دھپا شروع ہوا، ان خوش فعلیوں کے دوران میں ایک مسخرے نے ایک ایسا کھیل تجویز کردیا۔ جس کے آخر میں ایک آدمی بادشاہ بن جاتا ہے۔ دوسرا وزیر، تیسرا کوتوال اور جو سب سے ہار جاتا ہے۔ وہ چور۔ سب نے کہا “واہ واہ کیا بات کہی ہے”۔ ایک بولا۔ “پھر آج جو چور بنا، اس کی شامت آجائے گی”۔ دوسرے نے کہا۔ “اور نہیں تو کیا بھلا کوئی ایسا ویسا کھیل ہے۔ سلطنتوں کے معاملے ہیں سلطنتوں کے!”کھیل شروع ہوا۔ بدقسمتی سے ہم چور بن گئے۔ طرح طرح کی سزائیں تجویز ہونے لگیں۔ کوئی کہے، “ننگے پاؤں بھاگتے ہوئے جائے اور حلوائی کی دکان سے مٹھائی خرید کر لائے”۔ کوئی کہے، “نہیں حضور، سب کے پاؤں پڑے، اور ہر ایک سے دو دو چانٹے کھائے۔” دوسرے نے کہا “نہیں صاحب ایک پاؤں پر کھڑا ہو کر ہمارے سامنے ناچے۔” آخر میں بادشاہ سلامت بولے۔ “ہم حکم دیتے ہیں کہ چور کو کاغذ کی ایک لمبوتری نوک دار ٹوپی پہنائی جائے اور اس کے چہرے پر سیاہی مل دی جائے۔ اور یہ اس حالت میں جاکر اندرسے حقے کی چلم بھر کر لائے۔” سب نے کہا۔ “کیا دماغ پایا ہے حضور نے۔ کیا سزا تجویز کی ہے! واہ واہ!”ہم بھی مزے میں آئے ہوئے تھے، ہم نے کہا “تو ہوا کیا؟ آج ہم ہیں کل کسی اور کی باری آجائے گی۔” نہایت خندہ پیشانی سے اپنے چہرے کو پیش کیا۔ ہنس ہنس کر وہ بیہودہ سی ٹوپی پہنی، ایک شان استغنا کے ساتھ چلم اٹھائی اور زنانے کا دروازہ کھول کر باورچی خانے کو چل دیئے اور ہمارے پیچھے کمرہ قہقہوں سے گونج رہا تھا۔
صحن پر پہنچےہی تھے کہ باہر کا دروازہ کھلا اور ایک برقعہ پوش خاتون اندر داخل ہوئی، منہ سے برقعہ الٹا تو روشن آراء!دم خشک ہوگیا، بدن پر ایک لرزہ سا طاری ہوگیا، زبان بند ہوگئی، سامنے وہ روشن آراء جس کو میں نے تار دے کر بلایا تھا کہ تم فوراً آجاؤ میں بہت اداس ہوں اور اپنی یہ حالت کو منہ پر سیاہی ملی ہے، سر پر وہ لمبوتری سی کاغذ کی ٹوپی پہن رکھی ہے اور ہاتھ میں چلم اٹھائے کھڑے ہیں، اور مردانے سے قہقہوں کا شور برابر آرہا ہے۔روح منجمد ہوگئی اور تمام حواس نے جواب دے دیا۔ روشن آراء کچھ دیر تک چپکی کھڑی دیکھتی رہی اور پھر کہنے لگی۔۔۔ لیکن میں کیا بتاؤں کہ کیا کہنے لگی؟ اس کی آواز تو میرے کانوں تک جیسے بیہوشی کے عالم میں پہنچ رہی تھی۔اب تک آپ اتنا تو جان گئے ہوں گے، کہ میں بذات خود از حد شریف واقع ہوا ہوں، جہاں تک میں، میں ہوں مجھ سے بہتر میاں دنیا پیدا نہیں کرسکتی، میری سسرال میں سب کی یہی رائے ہے۔ اور میرا اپنا ایمان بھی یہی ہے لیکن ان دوستوں نے مجھے رسوا کردیا ہے۔ اس ليے میں نے مصمم ارادہ کرلیا ہے کہ اب یا گھر میں رہوں گا یا کام پر جایا کروں گا۔ نہ کسی سے ملوں گا اور نہ کسی کو اپنے گھر آنے دوں گا سوائے ڈاکیے یا حجام کے۔ اور ان سے بھی نہایت مختصر باتیں کروں گا۔“خط ہے؟”“جی ہاں”“دے جاؤ، چلے جاؤ۔”“ناخن تراش دو۔”“بھاگ جاؤ۔”بس، اس سے زیادہ کلام نہ کروں گا، آپ دیکھئے تو سہی!
Saturday, 16 July 2016
Paracetamol can sterilize men, research
پیراسیٹامول ایک بالکل عام دوا ہے جس کے لیے ڈاکٹر کے نسخے کی بھی ضرورت نہیں لیکن کیا یہ مردوں کی اولاد پیدا کرنے کی صلاحیت کو متاثر کر سکتی ہے؟ ماہرین نے خبردار کردیا ہے۔ ایک نئی تحقیق کے بعد معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں پیناڈول کے نام سے فروخت ہونے والی یہ بالکل عام دوا مردانہ بانجھ پن کا سبب بن سکتی ہے۔
نیشنل انسٹیٹیوٹس آف ہیلتھ کے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ جن جوڑوں پر تحقیق کی گئی ہے ان میں جن مردوں میں اس دوا کی سطح زیادہ تھی، ان کو بارآور ہونے میں ان افراد کے مقابلے میں زیادہ وقت لگا، جن کے جسم میں اس دوا کی مقدار کم تھی۔
بخار اور جسم میں درد کے لیے عام طور پر استعمال کی جانے والی اس دوا کے بارے میں سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ فی الحال ہمارے نتائج پر مستقبل میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
اس تحقیق کو ”لائف“کا نام دیا گیا تھا جس میں 2005ء سے 2009ء تک امریکی ریاستوں مشیگن اور ٹیکساس کے 501 جوڑوں نے حصہ لیا تھا۔ تحقیق میں شامل عورتوں کی عمریں 18 سے 44 سال تھیں۔
Subscribe to:
Posts (Atom)
ناڑہ پولیس کی نااہلی سجیکوٹ آبشار پر آنے والے سیاحوں کو ڈاکوناکہ لگا کرلوٹنے لگے
ناڑہ پولیس کی نااہلی سجیکوٹ آبشار پر آنے والے سیاحوں کو ڈاکوناکہ لگا کرلوٹنے لگے ایک ہفتہ میں سیاحوں کو لوٹنے کا دوسرا واقعہ رونما ہوا...
-
Protection of Animals Rights in Islam Islamic Shariah has well taken care of animal rights the same way as it has protected human righ...