Monday, 4 July 2016

غازی علم الدین شہید

تحریر طارق محمود خان
میانوالی جیل کی جنوبی دیوار کے ساتھ جیل کی اپنی زمین پر ایک چھوٹا سا قبرستان ہے، یہ ان بدنصیب  قیدیوں کی آخری آرام گاہ ہے جو لاوارث مر جاتے ہیں ۔ لیکن اسی لاورث قبرستان کو غازی علم دین شہید کا پہلا مدفن ہونے کا اعزاز حاصل ہے ۔31 اکتوبر1929 کو جیل کی ڈیوڑھی سے جب غازی کی میت باہر لائ گئ تو میانوالی کی عوام جو پچھلے کچھ روز سے جیل کا محاصرہ کۓ بیٹھی تھی ، رسول  اکرم  صلی الله علیہ وسلم کے جانثار عاشق کی میت کے حصول کیلۓ لپکی  ، چھینا جھپٹی میں ہنگامہ ہوگیا ، انگریز افسر زخمی ہوا،  لیکن عوام کامیاب نہ ہو سکے، اور انگریز حکومت نےخوفزدہ ہو کر جلدی میں میت تدفین کی ضروری رسومات یعنی جنازہ وغیرہ کے بغیر ہی  جیل کے کمبل میں لپیٹ کر اسی قبرستان میں دفنا دی ۔ اور اس جگہ کو عاشق رسول کی میت 14 نومبر 1929 تک امانت رکھنے کا اعزاز حاصل ہو گیا ۔ مجھےاس قبرستان اور میت سے تہی قبر کی تفصیل ملک حفیظ الرحمان سے یوں معلوم ہوئ کہ غازی شہید کے کچھ رشتہ دار اس جگہ کی زیارت کیلۓ 1985 میں لاہور سے آۓ تھے اور حاجی اکرام اللە خان پائ خیل شہید کےمہمان ہوۓ تھے اور وہ  گائیڈ کے طور پر انہیں اس جگہ پر لے کر آیا تھا ۔ یہ اب ایک خالی قبر کی جگہ تھی ، اس اداس دل کی طرح جسے بہت بڑاخزانہ مل کر چھن گیا ہو ۔ ملک حفیظ الرحمان کا اس وقت جیل روڈ لاہور پر کاروں کا بہت بڑا شو روم  ہے۔ 
جنازے کے بغیر تدفین پر سارے ہندوستان خاص طور پر لاہور کے مسلمان سراپا احتجاج بن گۓ ۔ علامہ محمد اقبال ، میاں عزیزالدین اور میاں امیرالدین کی سربراہی میں یہ کوشش آخر کامیاب ہو گئ اور علامہ اقبال کی گارنٹی کہ جنازے پر کوئ شورش نہیں ہوگی ، انگریز حکومت ، غازی شہید کی میت دینے پر رضامند ہو گئ ۔ محمد اکبر خان خنکی خیل بتاتے ہیں کہ مجھے ڈی سی میانوالی نے بلایا اور کہا ، کہ قبر کشائ کرنی ہے، آپ خوشبو کا بندوبست کریں ۔ یہ قبر کشائ ٹھیک پندرہ دن دن کے بعد ہو رہی تھی ۔ محمد اکبر خان مرحوم بتاتے ہیں ، میں نے اسے کہا  ، ہمیں یقین ہے کہ غازی کی میت محفوظ ہوگی ۔ یہ  گفتگو اور باقی تفصیل میں نے انہی کی زبانی سنی ہے اور یہ امانت آپ تک پہنچا رہا ہوں ۔ وہ بتاتے ہیں کمبل میں لپٹی پندرہ دن کی میت پھول کی طرح ترو تازہ تھی اور خوشبو استعمال کرنے کی ضرورت ہی پیش نہ آئ ۔ غازی کے چہرے پر دائیں یا بائیں ،سائیڈ میں بھول رہا ہوں ، لعاب کی ایک چھوٹی سی لکیر تھی جو گال تک گئ تھی ۔ میت کا یہ رنگ دیکھ کر سب دنگ رہ گۓ ۔ ہمارے ایک ٹیچر ملک اللە یار ریٹائر فوجی تھے ، انہوں نےگورنمنٹ ہائ سکول میانوالی کی مارننگ اسمبلی میں ہمیں بتایا تھا کہ اس وقت غازی کا اس وقت ایک گھٹنا ٹیڑھا ہورہا تھا ، ٹانگ کو ذرا کھینچا گیا تو گھٹنا سیدھا ہو گیا ۔
یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ غازی شہید کا پہلا جنازہ یہیں میانوالی میں ہی  پڑھا گیا۔ ان چند لوگوں کی امامت مولوی مصطفے خان زادے خیل نے کی تھی ۔ میرا یہی محلہ ہے ، زادے خیل میرے سسرالی عزیز ہیں  لیکن میں مولوی مصطفے خان کا سراغ  نہیں لگا سکا کہ وہ کون تھے اور کہاں رہتے تھے  ۔ اس قبر کشائ کیلۓ لاہور سے میجسٹریٹ مرزامہدی حسن اور سید مراتب علی شاہ 13 نومبر کو آۓ تھے ، 14 کو قبر کشائ ہوئ اور ریلوے نے میانوالی سے لے کر یہ امانت 15 نومبر کو لاہور میں علامہ اقبال کے سپرد کر دی ۔ محمد اکبر خان اس ٹرین کے ساتھ گۓ تھے ، یہ ٹرین مال گاڑی کے ڈبوں پر مشتمل تھی جو گورکھا فوجیوں  سے بھرے ہوۓ تھے۔ محمد اکبر خان کا یہ فقرہ ابھی تک میرےکانوں میں گونجتا ہے کہ اس مال گاڑی میں غازی صاحب کے ساتھ واحد میں ہی سویلین تھا۔۔۔۔۔۔


No comments:

ناڑہ پولیس کی نااہلی سجیکوٹ آبشار پر آنے والے سیاحوں کو ڈاکوناکہ لگا کرلوٹنے لگے

  ناڑہ پولیس کی نااہلی سجیکوٹ آبشار پر آنے والے سیاحوں کو ڈاکوناکہ لگا کرلوٹنے لگے ایک ہفتہ میں سیاحوں کو لوٹنے کا دوسرا واقعہ رونما ہوا...