منظر بہت دلچسپ تھا‘ بلاول بھٹو زلزلہ زدگان سے ملاقات کےلئے پشاور گئے‘ وزیراعلیٰ سندھ سید قائم علی شاہ اور شیری رحمان بھی ان کے ساتھ تھیں‘ ہمایوں خان کے گھر دعائیہ تقریب تھی‘ قائم علی شاہ اور شیری رحمان دونوں بلاول بھٹو سے پہلے وہاں پہنچ گئے‘ لوگ جمع تھے‘ لوگوں نے ان کا والہانہ استقبال کیا‘ لوگوں میں ایک جیالا بھی شامل تھا‘ جیالا آگے بڑھا اور اس نے قائم علی شاہ کے سر پر سندھی ٹوپی رکھ دی اور ان کے گلے میں اجرک ڈال دی‘ لوگوں نے جئے بھٹو کے نعرے لگائے‘ قائم علی شاہ نے اس کے بعد میڈیا سے گفتگو کی‘اس ساری کارروائی کے بعد مہمان اور میزبان دونوں خاموش بیٹھ گئے‘ میڈیا میں سے کسی رپورٹر نے شیری رحمان سے پوچھا ”بلاول بھٹو کب آئیں گے“ شیری نے جواب دیا ”وہ تھوڑی دیر میں پہنچ جائیں گے“ یہ گفتگو سید قائم علی شاہ کے سر پر ٹوپی رکھنے والا بھی سن رہا تھا‘ وہ فوراً اپنی جگہ سے اٹھا‘ تیر کی طرح قائم علی شاہ کے پاس گیا‘ ایک ہاتھ سے ان کے سر سے ٹوپی اتاری‘ دوسرے ہاتھ سے کندھے سے اجرک کھینچی اور اونچی آواز میں بولا ” سائیں معذرت کے ساتھ یہ دونوں بلاول بھٹو کےلئے ہیں“ شاہ صاحب جیالے کی شکل دیکھتے رہ گئے۔
یہ جیالا ہمارے معاشرے میں تنہا نہیں‘ آپ اگر اپنے دائیں بائیں دیکھیں تو آپ کو ایسے ہزاروں لاکھوں لوگ ملیں گے جنہیں جب یہ معلوم ہوتا ہے‘ وزیراعلیٰ کا باس آ رہا ہے تو یہ قائم علی شاہ کے سر سے ٹوپی اور کندھے سے اجرک اتارتے دیر نہیں لگاتے‘ یہ عملی لوگ ہیں‘ ان کا عمل صرف یہاں تک نہیں رہتا‘ یہ لوگ بعد ازاں قائم علی شاہ کے سر سے اتاری ہوئی ٹوپی اور اجرک بلاول بھٹو کے کندھوں اور سر پر رکھتے ہیں‘ جئے بھٹو کے فلک شگاف نعرے لگاتے ہیں اور اگلے دن جیالے کی مسکراتی ہوئی تصویر اخبارات میں شائع ہو جاتی ہے‘ مجھے یقین ہے‘ بلاول بھٹو نے جب رخصت ہوتے وقت وہ اجرک اور وہ ٹوپی اتاری ہو گی تو اسی جیالے نے ان سے بطور تبرک یہ دونوں واپس اچک لی ہوں گی اور یہ اب مستقبل میں آصف علی زرداری کے استقبال میں کام آئیں گی‘ یہ واقعہ صرف قائم علی شاہ کے ساتھ پیش نہیں آیا‘ ملک کے زیادہ تر سیاستدان‘ فوجی جرنیل‘ بیوروکریٹس اور میڈیا پرسنز اکثر اوقات ایسے حالات سے گزرتے رہتے ہیں‘ آپ کو یاد ہو گا صدر غلام اسحاق خان نے 1992ءمیں میاں نواز شریف کی حکومت برطرف کر دی تھی‘ میاں نواز شریف برطرفی کے چند ماہ بعد مانسہرہ گئے‘ یہ گاڑی سے نکلے تو لوگوں نے گھیر لیا‘ لوگ ”نواز شریف قدم بڑھاﺅ‘ ہم تمہارے ساتھ ہیں“ کے نعرے لگا رہے تھے‘ پورا شہر نعروں کی آواز سے گونج رہا تھا‘ میاں نواز شریف وہاں نماز کےلئے رکے تھے‘ وہ نعروں کی فلک شگاف آوازوں کے ساتھ آہستہ آہستہ مسجد کی طرف چل پڑے‘ لوگ بھی ان کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے‘ میاں نواز شریف نے جوں ہی مسجد کی دہلیز پر قدم رکھا‘ ہجوم چھٹ گیا اور نعروں والے متوالے غائب ہو گئے‘ تبلیغی جماعت کے جنرل جاوید ناصر میاں نواز شریف کے ساتھ تھے‘ جنرل صاحب نے مسکرا کر میاں نواز شریف سے کہا ”میاں صاحب جو قوم مسجد تک آپ کے قدموں سے قدم نہیں ملا سکی وہ آپ کا ساتھ کہاں تک دے گی“ جنرل پرویز مشرف ایسے درجنوں واقعات کی خوفناک مثال ہیں‘ آپ اس زمانے کی فوٹیج نکال کر دیکھ لیں جب جنرل پرویز مشرف کا اقتدار سوا نیزے پر تھا‘ آپ کو اس دور میں بے شمار عظیم لوگ جنرل مشرف کو دس بار یونیفارم میں منتخب کراتے نظر آئیں گے اور آپ کو ان کی محفل میں ناچنے والے بھی دکھائی دیں گے‘ سگار سلگا کر دینے والے بھی‘ مالش کرنے والے بھی اور طبلہ بجانے والے بھی لیکن پھر وہ لوگ کہاں چلے گئے؟ وہ لوگ آج بھی زندہ ہیں لیکن یہ آج مشرف کا نام سننے کے بعد وضو کےلئے چلے جاتے ہیں‘ جنرل پرویز مشرف نہ ہوتے تو دنیا شوکت عزیز کے نام تک سے واقف نہ ہوتی لیکن پھر ایک ایسا وقت بھی آیا جب شوکت عزیز نے لندن میں جنرل مشرف کا ٹیلی فون سننے سے انکار کر دیا‘ میں آج جب بھی ٹیلی ویژن پر ایک خاتون ایم این اے کو میاں نواز شریف کے گن گاتا دیکھتا ہوں تو میری ہنسی نکل جاتی ہے کیونکہ یہ وہ خاتون ہے جو 2008ءکے شروع میں روتے ہوئے ایوان صدر گئی‘ صدر کو بے چاری پر ترس آگیا‘ صدر کا ایک بینکر دوست انہیں مشکل میں دیکھ کر ان کےلئے دوبئی ائیر پورٹ کا ایک شاپنگ بیگ لایا تھا‘ صدر نے وہ بیگ بغیر کھولے خاتون کو دے دیا‘ خاتون بیگ لے کر گھر چلی گئی‘ بیگ میں آٹھ کروڑ روپے تھے لیکن وہ خاتون اب ٹیلی ویژن چینلز پر ”ہمارے وزیراعظم میاں نواز شریف“ کے دعوے بھی کرتی ہیں‘ پروٹوکول بھی انجوائے کرتی ہیں اور اگر کسی اینکر کے منہ سے جنرل مشرف کا نام نکل جائے تو یہ برا سا منہ بھی بناتی ہیں‘ میں یہاں محترم شیخ رشید کی مثال بھی پیش کروں گا‘ شیخ رشید سیاست کے نجومی ”ماموں“ ہیں‘ یہ جنرل مشرف کو سید پرویز مشرف کہتے تھے لیکن پھر آپ ان کا ہاتھ چھڑانا بھی دیکھئے‘ یہ آج جنرل مشرف کو لال مسجد کے اس واقعے کا بھی تنہا ذمہ دار قرار دیتے ہیں جس کے دوران یہ ٹیلی ویژن چینلز کو ”کالے کیمرے“ کہتے تھے‘ آپ کے پاس اگر کسی دن وقت ہو تو آپ ملک کے مختلف شہروں میں لگے ”جنرل راحیل شریف تیری عظمت کو سلام“ جیسے بینرز پر ریسرچ کریں‘ آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے‘ ان شہروں میں اس سے قبل ”جنرل کیانی تیری عظمت کو سلام“ اور اس سے قبل ”جنرل پرویز مشرف تیری عظمت کو سلام“ کے بینر لگے تھے اور ان کے نیچے انہی لوگوں کے نام درج تھے جن کے نام آج ان بینرز پر چمک رہے ہیں‘ یہ کون لوگ ہیں؟ یہ لوگ اسی شخص کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جس نے چند دن قبل قائم علی شاہ کے سر سے ٹوپی اور کندھوں سے اجرک کھینچ لی تھی‘ یہ باکمال لوگ ہیں‘ یہ ڈوبتے سورج کو عصر کے وقت ہی گڈ بائی کہہ دیتے ہیں اور نئے سورج کی پرستش صبح کاذب کے وقت ہی شروع کر دیتے ہیں‘ یہ اس قدر سمجھ دار لوگ ہیں کہ یہ چند روپے کی ٹوپی اور دوگز کی اجرک بھی ضائع نہیں کرتے‘ یہ لوگ ملک کے ہر شہر‘ ہر قصبے اور ہر طبقے میں موجود ہیں‘ آپ کو یہ ہر جگہ وافر مقدار میں ملیں گے۔
مجھے برسوں قبل گجرات شہر کے ایک نامہ نگار نے اپنی زندگی کا واقعہ سنایا‘ وہ ملک کے ایک بڑے اخبار کا نامہ نگار تھا‘ اخبار نے کسی غلط خبر پر اسے فارغ کر دیا‘ اگلے دن کوئی صاحب اپنے بیٹے کی شادی کا کارڈ دینے آ گئے‘ کارڈ پر نامہ نگار کے نام کے ساتھ اخبار کا نام لکھا تھا‘ نامہ نگار نے شرمندہ سا ہو کر کہا ”میں اب اس اخبار کے ساتھ وابستہ نہیں ہوں“ کارڈ دینے والے نے دوسرے بڑے اخبار کا نام لیا اور پوچھا ”کیا آپ اب اس اخبار میں چلے گئے ہیں“ نامہ نگار نے انکار میں سر ہلا دیا‘ کارڈ والے نے تیسرے اخبار کا نام لیا‘ نامہ نگار نے ایک بار پھر سر ہلا دیا‘ اس کے بعد کارڈ دینے والا اخبار کا نام بولتا جاتا اور نامہ نگار انکار میں سر ہلاتا جاتا یہاں تک کہ اس شخص کو جتنے اخبارات کے نام یاد تھے اس نے دہرا دیئے‘ جب اسے معلوم ہو گیا یہ نامہ نگار اب کسی اخبار کے ساتھ وابستہ نہیں تو اس نے کارڈ نامہ نگار کے ہاتھ سے واپس کھینچا‘ اٹھا اور بغیر سلام کئے واپس چلاگیا‘ میری اپنی زندگی میں بھی دو ایسے واقعات موجود ہیں‘ رانا بھگوان داس کو کون نہیں جانتا‘ رانا صاحب کمال انسان تھے‘ ہم عدلیہ میں ان کے کردار کو کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے‘ رانا صاحب کو میرے ساتھ یورپ جانے کا شوق تھا‘ میں انہیں لے کر فرانس‘ اٹلی اور سپین چلا گیا‘ اٹلی میں ایک پاکستانی نے ہمیں کھانے پر مدعو کیا‘ کھانے کا اہتمام اس کے گھر پر تھا‘ میزبان نے چند پاکستانیوں کو بھی بلایا‘ کھانے سے قبل گفتگو شروع ہوئی تو ایک صاحب نے رانا صاحب سے اونچی آواز میں کہا ” چیف جسٹس صاحب! آپ کی ریٹائرمنٹ میں تو چند ہفتے باقی ہیں“ رانا صاحب شریف آدمی تھے‘ انہوں نے تائید میں سر ہلایا اور جواب دیا‘ جی ہاں‘ اتنے ہفتے‘ اتنے دن اور اتنے گھنٹے‘ اس نے اگلا سوال پوچھا” کیا آپ کو ایکسٹینشن کی کوئی توقع ہے؟“ رانا صاحب نے انکار میں سر ہلایا اور جواب دیا ”میں ایکسٹینشن کے خلاف ہوں“ اس کے بعد محفل پر سناٹا طاری ہو گیا‘ اس سناٹے کو میزبان کی آواز ”آئیے کھاناشروع کریں“ نے توڑا‘ کھانے کے دوران بھی وہ صاحب لوگوں کو سرگوشیوں میں بتاتے رہے ”یہ ریٹائر ہونے والے ہیں‘ زیادہ تصویریں بنوانے کی ضرورت نہیں“ میں دوسرے واقعے کا براہ راست ہدف ہوں‘ مجھے ایک دوست کے ریفرنس سے ایک صاحب ملے‘ وہ فرانس میں رہتے ہیں‘ سیاست کے چسکے میں مبتلا ہیں‘ ایک آدھ الیکشن بھی ہار چکے ہیں‘ وہ مجھے تین چار بار ملے‘ میں ان کی جتنی خدمت کر سکتا تھا‘ میں نے کی‘ وہ مجھے ایک بار کہنے لگے ”آپ مجھے اپنے شو میں مدعو کریں“ میں نے عرض کیا ”یہ ممکن نہیں‘ ہمارا شو کرنٹ افیئرز سے متعلق ہوتا ہے اور آپ کسی بھی طرح اس میں فٹ نہیں ہوتے“ وہ ناراض ہو گئے‘ انہوں نے چند دن بعد میرے دوست سے پوچھا ”کیا جاوید چودھری کسی کا کام کرتا ہے“ دوست نے جواب دیا ”ناجائز ہو تو بالکل نہیں کرتا“ وہ فوراً بولے ”چھڈو دفع کرو‘ فیر ملن دا کی فیدہ“ میں نے سنا تو میری ہنسی نکل گئی‘ وہ صاحب بھی ”کردار“ کے پکے ہیں‘ وہ واقعی پھر مجھے کبھی نہیں ملے‘ ایک بار پیرس ائیرپورٹ پر آمنا سامنا ہوا تو وہ دور ہی سے ہاتھ ہلا کر نکل گئے‘ انہوں نے سلام بھی ضائع نہیں کیا‘ یہ کردار آپ کو گلی محلے سے لے کر ایوان اقتدار تک ہر جگہ نظر آئے گا۔
ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جس میں جنرل‘ چیئرمین‘ سیکرٹری‘ وزیر اور سائیں کا گھوڑا مر جائے تو دعا کےلئے پورا شہر جمع ہو جاتا ہے لیکن اگر سائیں خود انتقال فرما جائیں تو لوگ دعا تک کو فضول خرچی سمجھتے ہیں لیکن آپ جب بھی لوگوں سے لیڈرز کے بارے میں پوچھیں تو لیڈر انہیں لی کوان یو‘ مہاتیر محمد اور طیب اردگان جیسا چاہیے‘ یہ خود شادی کا ایک کارڈ‘ ایک سلام‘ ایک ٹوپی اور ایک اجرک قربان نہیں کریں گے لیکن دوسروں سے جان تک مانگ لیں گے‘ میں صدقے جاواں۔
یہ جیالا ہمارے معاشرے میں تنہا نہیں‘ آپ اگر اپنے دائیں بائیں دیکھیں تو آپ کو ایسے ہزاروں لاکھوں لوگ ملیں گے جنہیں جب یہ معلوم ہوتا ہے‘ وزیراعلیٰ کا باس آ رہا ہے تو یہ قائم علی شاہ کے سر سے ٹوپی اور کندھے سے اجرک اتارتے دیر نہیں لگاتے‘ یہ عملی لوگ ہیں‘ ان کا عمل صرف یہاں تک نہیں رہتا‘ یہ لوگ بعد ازاں قائم علی شاہ کے سر سے اتاری ہوئی ٹوپی اور اجرک بلاول بھٹو کے کندھوں اور سر پر رکھتے ہیں‘ جئے بھٹو کے فلک شگاف نعرے لگاتے ہیں اور اگلے دن جیالے کی مسکراتی ہوئی تصویر اخبارات میں شائع ہو جاتی ہے‘ مجھے یقین ہے‘ بلاول بھٹو نے جب رخصت ہوتے وقت وہ اجرک اور وہ ٹوپی اتاری ہو گی تو اسی جیالے نے ان سے بطور تبرک یہ دونوں واپس اچک لی ہوں گی اور یہ اب مستقبل میں آصف علی زرداری کے استقبال میں کام آئیں گی‘ یہ واقعہ صرف قائم علی شاہ کے ساتھ پیش نہیں آیا‘ ملک کے زیادہ تر سیاستدان‘ فوجی جرنیل‘ بیوروکریٹس اور میڈیا پرسنز اکثر اوقات ایسے حالات سے گزرتے رہتے ہیں‘ آپ کو یاد ہو گا صدر غلام اسحاق خان نے 1992ءمیں میاں نواز شریف کی حکومت برطرف کر دی تھی‘ میاں نواز شریف برطرفی کے چند ماہ بعد مانسہرہ گئے‘ یہ گاڑی سے نکلے تو لوگوں نے گھیر لیا‘ لوگ ”نواز شریف قدم بڑھاﺅ‘ ہم تمہارے ساتھ ہیں“ کے نعرے لگا رہے تھے‘ پورا شہر نعروں کی آواز سے گونج رہا تھا‘ میاں نواز شریف وہاں نماز کےلئے رکے تھے‘ وہ نعروں کی فلک شگاف آوازوں کے ساتھ آہستہ آہستہ مسجد کی طرف چل پڑے‘ لوگ بھی ان کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے‘ میاں نواز شریف نے جوں ہی مسجد کی دہلیز پر قدم رکھا‘ ہجوم چھٹ گیا اور نعروں والے متوالے غائب ہو گئے‘ تبلیغی جماعت کے جنرل جاوید ناصر میاں نواز شریف کے ساتھ تھے‘ جنرل صاحب نے مسکرا کر میاں نواز شریف سے کہا ”میاں صاحب جو قوم مسجد تک آپ کے قدموں سے قدم نہیں ملا سکی وہ آپ کا ساتھ کہاں تک دے گی“ جنرل پرویز مشرف ایسے درجنوں واقعات کی خوفناک مثال ہیں‘ آپ اس زمانے کی فوٹیج نکال کر دیکھ لیں جب جنرل پرویز مشرف کا اقتدار سوا نیزے پر تھا‘ آپ کو اس دور میں بے شمار عظیم لوگ جنرل مشرف کو دس بار یونیفارم میں منتخب کراتے نظر آئیں گے اور آپ کو ان کی محفل میں ناچنے والے بھی دکھائی دیں گے‘ سگار سلگا کر دینے والے بھی‘ مالش کرنے والے بھی اور طبلہ بجانے والے بھی لیکن پھر وہ لوگ کہاں چلے گئے؟ وہ لوگ آج بھی زندہ ہیں لیکن یہ آج مشرف کا نام سننے کے بعد وضو کےلئے چلے جاتے ہیں‘ جنرل پرویز مشرف نہ ہوتے تو دنیا شوکت عزیز کے نام تک سے واقف نہ ہوتی لیکن پھر ایک ایسا وقت بھی آیا جب شوکت عزیز نے لندن میں جنرل مشرف کا ٹیلی فون سننے سے انکار کر دیا‘ میں آج جب بھی ٹیلی ویژن پر ایک خاتون ایم این اے کو میاں نواز شریف کے گن گاتا دیکھتا ہوں تو میری ہنسی نکل جاتی ہے کیونکہ یہ وہ خاتون ہے جو 2008ءکے شروع میں روتے ہوئے ایوان صدر گئی‘ صدر کو بے چاری پر ترس آگیا‘ صدر کا ایک بینکر دوست انہیں مشکل میں دیکھ کر ان کےلئے دوبئی ائیر پورٹ کا ایک شاپنگ بیگ لایا تھا‘ صدر نے وہ بیگ بغیر کھولے خاتون کو دے دیا‘ خاتون بیگ لے کر گھر چلی گئی‘ بیگ میں آٹھ کروڑ روپے تھے لیکن وہ خاتون اب ٹیلی ویژن چینلز پر ”ہمارے وزیراعظم میاں نواز شریف“ کے دعوے بھی کرتی ہیں‘ پروٹوکول بھی انجوائے کرتی ہیں اور اگر کسی اینکر کے منہ سے جنرل مشرف کا نام نکل جائے تو یہ برا سا منہ بھی بناتی ہیں‘ میں یہاں محترم شیخ رشید کی مثال بھی پیش کروں گا‘ شیخ رشید سیاست کے نجومی ”ماموں“ ہیں‘ یہ جنرل مشرف کو سید پرویز مشرف کہتے تھے لیکن پھر آپ ان کا ہاتھ چھڑانا بھی دیکھئے‘ یہ آج جنرل مشرف کو لال مسجد کے اس واقعے کا بھی تنہا ذمہ دار قرار دیتے ہیں جس کے دوران یہ ٹیلی ویژن چینلز کو ”کالے کیمرے“ کہتے تھے‘ آپ کے پاس اگر کسی دن وقت ہو تو آپ ملک کے مختلف شہروں میں لگے ”جنرل راحیل شریف تیری عظمت کو سلام“ جیسے بینرز پر ریسرچ کریں‘ آپ یہ دیکھ کر حیران رہ جائیں گے‘ ان شہروں میں اس سے قبل ”جنرل کیانی تیری عظمت کو سلام“ اور اس سے قبل ”جنرل پرویز مشرف تیری عظمت کو سلام“ کے بینر لگے تھے اور ان کے نیچے انہی لوگوں کے نام درج تھے جن کے نام آج ان بینرز پر چمک رہے ہیں‘ یہ کون لوگ ہیں؟ یہ لوگ اسی شخص کے قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں جس نے چند دن قبل قائم علی شاہ کے سر سے ٹوپی اور کندھوں سے اجرک کھینچ لی تھی‘ یہ باکمال لوگ ہیں‘ یہ ڈوبتے سورج کو عصر کے وقت ہی گڈ بائی کہہ دیتے ہیں اور نئے سورج کی پرستش صبح کاذب کے وقت ہی شروع کر دیتے ہیں‘ یہ اس قدر سمجھ دار لوگ ہیں کہ یہ چند روپے کی ٹوپی اور دوگز کی اجرک بھی ضائع نہیں کرتے‘ یہ لوگ ملک کے ہر شہر‘ ہر قصبے اور ہر طبقے میں موجود ہیں‘ آپ کو یہ ہر جگہ وافر مقدار میں ملیں گے۔
مجھے برسوں قبل گجرات شہر کے ایک نامہ نگار نے اپنی زندگی کا واقعہ سنایا‘ وہ ملک کے ایک بڑے اخبار کا نامہ نگار تھا‘ اخبار نے کسی غلط خبر پر اسے فارغ کر دیا‘ اگلے دن کوئی صاحب اپنے بیٹے کی شادی کا کارڈ دینے آ گئے‘ کارڈ پر نامہ نگار کے نام کے ساتھ اخبار کا نام لکھا تھا‘ نامہ نگار نے شرمندہ سا ہو کر کہا ”میں اب اس اخبار کے ساتھ وابستہ نہیں ہوں“ کارڈ دینے والے نے دوسرے بڑے اخبار کا نام لیا اور پوچھا ”کیا آپ اب اس اخبار میں چلے گئے ہیں“ نامہ نگار نے انکار میں سر ہلا دیا‘ کارڈ والے نے تیسرے اخبار کا نام لیا‘ نامہ نگار نے ایک بار پھر سر ہلا دیا‘ اس کے بعد کارڈ دینے والا اخبار کا نام بولتا جاتا اور نامہ نگار انکار میں سر ہلاتا جاتا یہاں تک کہ اس شخص کو جتنے اخبارات کے نام یاد تھے اس نے دہرا دیئے‘ جب اسے معلوم ہو گیا یہ نامہ نگار اب کسی اخبار کے ساتھ وابستہ نہیں تو اس نے کارڈ نامہ نگار کے ہاتھ سے واپس کھینچا‘ اٹھا اور بغیر سلام کئے واپس چلاگیا‘ میری اپنی زندگی میں بھی دو ایسے واقعات موجود ہیں‘ رانا بھگوان داس کو کون نہیں جانتا‘ رانا صاحب کمال انسان تھے‘ ہم عدلیہ میں ان کے کردار کو کبھی فراموش نہیں کر سکیں گے‘ رانا صاحب کو میرے ساتھ یورپ جانے کا شوق تھا‘ میں انہیں لے کر فرانس‘ اٹلی اور سپین چلا گیا‘ اٹلی میں ایک پاکستانی نے ہمیں کھانے پر مدعو کیا‘ کھانے کا اہتمام اس کے گھر پر تھا‘ میزبان نے چند پاکستانیوں کو بھی بلایا‘ کھانے سے قبل گفتگو شروع ہوئی تو ایک صاحب نے رانا صاحب سے اونچی آواز میں کہا ” چیف جسٹس صاحب! آپ کی ریٹائرمنٹ میں تو چند ہفتے باقی ہیں“ رانا صاحب شریف آدمی تھے‘ انہوں نے تائید میں سر ہلایا اور جواب دیا‘ جی ہاں‘ اتنے ہفتے‘ اتنے دن اور اتنے گھنٹے‘ اس نے اگلا سوال پوچھا” کیا آپ کو ایکسٹینشن کی کوئی توقع ہے؟“ رانا صاحب نے انکار میں سر ہلایا اور جواب دیا ”میں ایکسٹینشن کے خلاف ہوں“ اس کے بعد محفل پر سناٹا طاری ہو گیا‘ اس سناٹے کو میزبان کی آواز ”آئیے کھاناشروع کریں“ نے توڑا‘ کھانے کے دوران بھی وہ صاحب لوگوں کو سرگوشیوں میں بتاتے رہے ”یہ ریٹائر ہونے والے ہیں‘ زیادہ تصویریں بنوانے کی ضرورت نہیں“ میں دوسرے واقعے کا براہ راست ہدف ہوں‘ مجھے ایک دوست کے ریفرنس سے ایک صاحب ملے‘ وہ فرانس میں رہتے ہیں‘ سیاست کے چسکے میں مبتلا ہیں‘ ایک آدھ الیکشن بھی ہار چکے ہیں‘ وہ مجھے تین چار بار ملے‘ میں ان کی جتنی خدمت کر سکتا تھا‘ میں نے کی‘ وہ مجھے ایک بار کہنے لگے ”آپ مجھے اپنے شو میں مدعو کریں“ میں نے عرض کیا ”یہ ممکن نہیں‘ ہمارا شو کرنٹ افیئرز سے متعلق ہوتا ہے اور آپ کسی بھی طرح اس میں فٹ نہیں ہوتے“ وہ ناراض ہو گئے‘ انہوں نے چند دن بعد میرے دوست سے پوچھا ”کیا جاوید چودھری کسی کا کام کرتا ہے“ دوست نے جواب دیا ”ناجائز ہو تو بالکل نہیں کرتا“ وہ فوراً بولے ”چھڈو دفع کرو‘ فیر ملن دا کی فیدہ“ میں نے سنا تو میری ہنسی نکل گئی‘ وہ صاحب بھی ”کردار“ کے پکے ہیں‘ وہ واقعی پھر مجھے کبھی نہیں ملے‘ ایک بار پیرس ائیرپورٹ پر آمنا سامنا ہوا تو وہ دور ہی سے ہاتھ ہلا کر نکل گئے‘ انہوں نے سلام بھی ضائع نہیں کیا‘ یہ کردار آپ کو گلی محلے سے لے کر ایوان اقتدار تک ہر جگہ نظر آئے گا۔
ہم ایک ایسے معاشرے میں رہ رہے ہیں جس میں جنرل‘ چیئرمین‘ سیکرٹری‘ وزیر اور سائیں کا گھوڑا مر جائے تو دعا کےلئے پورا شہر جمع ہو جاتا ہے لیکن اگر سائیں خود انتقال فرما جائیں تو لوگ دعا تک کو فضول خرچی سمجھتے ہیں لیکن آپ جب بھی لوگوں سے لیڈرز کے بارے میں پوچھیں تو لیڈر انہیں لی کوان یو‘ مہاتیر محمد اور طیب اردگان جیسا چاہیے‘ یہ خود شادی کا ایک کارڈ‘ ایک سلام‘ ایک ٹوپی اور ایک اجرک قربان نہیں کریں گے لیکن دوسروں سے جان تک مانگ لیں گے‘ میں صدقے جاواں۔
No comments:
Post a Comment