ایک بہو کی حکایت ہے کہ نئی نئی شادی ہو کر سسرال میں آئی، مگر بولتی نہ تھی۔ساس بہت رنجیدہ تھی کہ ہائے بہو گونگی ہے بولتی کیوں نہیں۔
ساس نے اسے بہت سمجھایا کہ لڑکیاں تو بولتی ہوئی اچھی لگا کرتی ہیں
تو کیوں نہیں بولتی۔
کہنے لگی کہ: میری ماں نے مجھے منع کیا تھا کہ ساس کے گھر بولنا مت!
ساس نے کہا، تیری ماں نے نجانے کیوں تجھے بولنے سے منع کر رکھا تھا، تم ضرور بولا کرو۔
ایک دن بہو سکوت کے سارے تالے توڑ کر خود ہی کہنے لگی، ارے جی کہ میں یوں پوچھوں اگر تمھارا بیٹا مر گیا تو تم میرا دوسرا نکاح کروگی یا یوں ہی ساری عمر بٹھائے رکھوگی ۔
ساس نے کہا ، بس بہو تو چپ رہا کر ،،،، مہینوں میں بولی تو یہ پھول جھڑے ، آگے کو نامعلوم کیا کیا ستم ڈھائے گی۔
پورے پاکستان کو شکایت تھی کہ صدرِ پاکستان بولتے ہی نہیں۔ان کی خاموشی پر لطائف بنائے گئے اور نجانے کیا کیا کچھ کہا گیا۔
تو جناب صدر نے آج خاموشی توڑی ہے اور کیسے توڑی ہے آپ بھی سنئے۔ فرماتے ہیں،
’’علمائے کرام قرضے پر سود کی گنجائش پیدا کریں۔‘‘
جنابِ والا! ہم معذرت خواہ ہیں ہم اس بات کا ادراک نہیں کر پائے کہ جس نے آپ کو خاموش رہنے کا کہا ہے کسی وجہ سے ہی کہا ہو گا۔ ہم آپ کی معذوری سمجھتے ہیں ، براہ کرم ایسے بولنے سے خاموش ہی رہئے۔
ساس نے اسے بہت سمجھایا کہ لڑکیاں تو بولتی ہوئی اچھی لگا کرتی ہیں
تو کیوں نہیں بولتی۔
کہنے لگی کہ: میری ماں نے مجھے منع کیا تھا کہ ساس کے گھر بولنا مت!
ساس نے کہا، تیری ماں نے نجانے کیوں تجھے بولنے سے منع کر رکھا تھا، تم ضرور بولا کرو۔
ایک دن بہو سکوت کے سارے تالے توڑ کر خود ہی کہنے لگی، ارے جی کہ میں یوں پوچھوں اگر تمھارا بیٹا مر گیا تو تم میرا دوسرا نکاح کروگی یا یوں ہی ساری عمر بٹھائے رکھوگی ۔
ساس نے کہا ، بس بہو تو چپ رہا کر ،،،، مہینوں میں بولی تو یہ پھول جھڑے ، آگے کو نامعلوم کیا کیا ستم ڈھائے گی۔
پورے پاکستان کو شکایت تھی کہ صدرِ پاکستان بولتے ہی نہیں۔ان کی خاموشی پر لطائف بنائے گئے اور نجانے کیا کیا کچھ کہا گیا۔
تو جناب صدر نے آج خاموشی توڑی ہے اور کیسے توڑی ہے آپ بھی سنئے۔ فرماتے ہیں،
’’علمائے کرام قرضے پر سود کی گنجائش پیدا کریں۔‘‘
جنابِ والا! ہم معذرت خواہ ہیں ہم اس بات کا ادراک نہیں کر پائے کہ جس نے آپ کو خاموش رہنے کا کہا ہے کسی وجہ سے ہی کہا ہو گا۔ ہم آپ کی معذوری سمجھتے ہیں ، براہ کرم ایسے بولنے سے خاموش ہی رہئے۔
No comments:
Post a Comment